کیف سرور و سوز کے قابل نہیں رہا
کیف سرور و سوز کے قابل نہیں رہا یہ اور دل ہے اب وہ مرا دل نہیں رہا سینے میں موجزن نہیں طوفان آرزو ٹکرائے کس سے موج کہ ساحل نہیں رہا جو کچھ متاع دل تھی وہ سب ختم ہو گئی اب کاروبار شوق کے قابل نہیں رہا بزم طرب بساط مسرت فریب ہیں میں عیش مستعار کا قائل نہیں رہا کم مائیگی نے دل تجھے ...