Rind Saghari

رند ساغری

رند ساغری کی غزل

    ہر ایک جسم پہ بس ایک ہی سے گہنے لگے

    ہر ایک جسم پہ بس ایک ہی سے گہنے لگے ہمیں تو لوگ تمہارا ہی روپ پہنے لگے بس ایک لو سی نظر آئی تھی پھر اس کے بعد بجھے چراغ سیہ پانیوں پہ بہنے لگے اسے بھی حادثہ کہیے کہ خشک دریا پر پڑی جو دھوپ تو پتھر پگھل کے بہنے لگے رتوں نے کروٹیں بدلیں تو ہم نے بھی اک بار پھر اپنے گھر کو سجایا اور ...

    مزید پڑھیے

    صبا گلوں کی ہر اک پنکھڑی سنوارتی ہے

    صبا گلوں کی ہر اک پنکھڑی سنوارتی ہے عجیب ڈھنگ سے یہ آرتی اتارتی ہے افق پہ پھر ابھر آئے ہیں تیرگی کے نشیب امید جیتی ہوئی دل کی بازی ہارتی ہے لہک کے گزری ہے کچھ یوں مراد کی خوشبو کہ روح پھر دل حساس کو پکارتی ہے خموش شہر کی سنسان سرد راتوں میں تمہاری یاد مرے ساتھ شب گزارتی ...

    مزید پڑھیے

    اداس اداس تھے ہم اس کو اک زمانہ ہوا

    اداس اداس تھے ہم اس کو اک زمانہ ہوا غزل کا آئنہ دیکھا تو مسکرانا ہوا نہ جانے کتنے ہی خبروں نے خودکشی کر لی چلو کہ آج کا اخبار بھی پرانا ہوا پھر آج بیتے ہوئے موسموں کی یاد آئی پھر آج رینگتے لمحوں سے دوستانہ ہوا یہ بند کمرے کی تنہائیوں کا غل تھا کہ پھر ہمارے وہم پر اک وار قاتلانہ ...

    مزید پڑھیے