کسی بھی طور طبیعت کہاں سنبھلنے کی
کسی بھی طور طبیعت کہاں سنبھلنے کی تو مل بھی جائے تو حالت نہیں بدلنے کی خود اپنی ہم سفری سے بھی ہو گئے محروم کہ آرزو تھی تجھے ساتھ لے کے چلنے کی کسی طرح تو ملے قہر بیکسی سے نجات کوئی تو راہ ہو اس کرب سے نکلنے کی اسیر ہی رہے ہم پچھلے عہد ناموں کے ہمیں خبر ہی نہیں تھی رتیں بدلنے ...