ریاض مجید کی غزل

    کسی بھی طور طبیعت کہاں سنبھلنے کی

    کسی بھی طور طبیعت کہاں سنبھلنے کی تو مل بھی جائے تو حالت نہیں بدلنے کی خود اپنی ہم سفری سے بھی ہو گئے محروم کہ آرزو تھی تجھے ساتھ لے کے چلنے کی کسی طرح تو ملے قہر بیکسی سے نجات کوئی تو راہ ہو اس کرب سے نکلنے کی اسیر ہی رہے ہم پچھلے عہد ناموں کے ہمیں خبر ہی نہیں تھی رتیں بدلنے ...

    مزید پڑھیے

    رات دن محبوس اپنے ظاہری پیکر میں ہوں

    رات دن محبوس اپنے ظاہری پیکر میں ہوں شعلۂ مضطر ہوں میں لیکن ابھی پتھر میں ہوں اپنی سوچوں سے نکلنا بھی مجھے دشوار ہے دیکھ میں کس بے کسی کے گنبد بے در میں ہوں دیکھتے ہیں سب مگر کوئی مجھے پڑھتا نہیں گزرے وقتوں کی عبارت ہوں عجائب گھر میں ہوں جرم کرتا ہے کوئی اور شرم آتی ہے مجھے یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3