مکان دل سے جو اٹھتا تھا وہ دھواں بھی گیا
مکان دل سے جو اٹھتا تھا وہ دھواں بھی گیا بجھی جو آتش جاں زیست کا نشاں بھی گیا بہت پناہ تھی اس گھر کی چھت کے سائے میں وہاں سے نکلے تو پھر سر سے آسماں بھی گیا بڑھا کچھ اور تجسس جلا کچھ اور بھی ذہن حقیقتوں کے تعاقب میں میں جہاں بھی گیا رہے نہ ساتھ جو پچھتاوے بھی تو رنج ہوا کہ حاصل ...