ریاض مجید کی غزل

    مکان دل سے جو اٹھتا تھا وہ دھواں بھی گیا

    مکان دل سے جو اٹھتا تھا وہ دھواں بھی گیا بجھی جو آتش جاں زیست کا نشاں بھی گیا بہت پناہ تھی اس گھر کی چھت کے سائے میں وہاں سے نکلے تو پھر سر سے آسماں بھی گیا بڑھا کچھ اور تجسس جلا کچھ اور بھی ذہن حقیقتوں کے تعاقب میں میں جہاں بھی گیا رہے نہ ساتھ جو پچھتاوے بھی تو رنج ہوا کہ حاصل ...

    مزید پڑھیے

    سطح بیں تھے، سب رہے باہر کی کائی دیکھتے

    سطح بیں تھے، سب رہے باہر کی کائی دیکھتے لوگ کیسے میرے اندر کی صفائی دیکھتے اس سے ملنے کا نشاں تک بھی نظر آتا نہیں ایک مدت ہو گئی راہ جدائی دیکھتے ہم تو اپنی وسعت دل سے بھی کوسوں دور تھے تیرے دل تک کس طرح اپنی رسائی دیکھتے آپ ہی تھک ہار کر اپنے کو بے حس کر لیا زندگی کب تک تری بے ...

    مزید پڑھیے

    جب اگلے سال یہی وقت آ رہا ہوگا

    جب اگلے سال یہی وقت آ رہا ہوگا یہ کون جانتا ہے کون کس جگہ ہوگا تو میرے سامنے بیٹھا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ آئے لمحوں میں جینا بھی اک سزا ہوگا ہم اپنے اپنے بکھیڑوں میں پھنس چکے ہوں گے نہ تجھ کو میرا نہ مجھ کو ترا پتا ہوگا یہی جگہ جہاں ہم آج مل کے بیٹھے ہیں اسی جگہ پہ خدا جانے کل کو ...

    مزید پڑھیے

    اس نے اک دن بھی نہ پوچھا بول آخر کس لیے

    اس نے اک دن بھی نہ پوچھا بول آخر کس لیے تو مرے ہوتے دکھی ہے میرے شاعر کس لیے سانس لینے پر مجھے مجبور کرتا ہے یہ کون کیا بتاؤں جی رہا ہوں کس کی خاطر کس لیے سوچتا ہوں کیوں بکھر جاتی نہیں ہر ایک شے وہ نہیں ہے تو مرتب ہیں عناصر کس لیے وہ جو اس کے دل میں ہے کیوں اس کے ہونٹوں پر نہیں کچھ ...

    مزید پڑھیے

    جو سوچتا ہوں اگر وہ ہوا سے کہہ جاؤں

    جو سوچتا ہوں اگر وہ ہوا سے کہہ جاؤں ہوا کی لوح پہ محفوظ ہو کے رہ جاؤں یہ کیا یقین کہ تو مل ہی جائے گا مجھ کو تری جدائی کا جاں لیوا دک تو سہہ جاؤں خود اپنے آپ کو دیکھوں ورق ورق کر کے کسی کے سامنے جاؤں تو تہہ بہ تہہ جاؤں کھڑا ہوں صورت دیوار ریگ ساحل پر ذرا سی موج بھی آئے تو گھل کے ...

    مزید پڑھیے

    وہ دل کہ تھا کبھی سرسبز کھیتیوں کی طرح

    وہ دل کہ تھا کبھی سرسبز کھیتیوں کی طرح سلگ رہا ہے جھلستے ہوئے تھلوں کی طرح یہ شعر جس کی زمیں کو بھی مجھ سے شکوے ہیں رہے گا یاد پرانی محبتوں کی طرح کسی جگہ پہ بھی سیاح دل ٹھہر نہ سکا جہاں کی سیر کو نکلے مسافروں کی طرح اترتی ذہن میں بھی خوش گوار دھوپ کبھی شروع گرما کے کھلتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    چھپے ہوئے تھے جو نقد شعور کے ڈر سے

    چھپے ہوئے تھے جو نقد شعور کے ڈر سے نکل سکے نہ وہ جذبات میرے اندر سے کبھی بھی شہر‌ طلسمات دل کی سیر نہ کی ہر ایک جلوہ لیا مستعار باہر سے رہے ہم اپنی ہی گہرائیوں سے ناواقف اتر سکی نہ کبھی کائی سطح دل پر سے سکوں کی جنتیں دوزخ نہیں اذیت کا عجیب حال ہوا آگہی کے محشر سے ہماری بچوں سی ...

    مزید پڑھیے

    کون سے جذبات لے کر تیرے پاس آیا کروں

    کون سے جذبات لے کر تیرے پاس آیا کروں تو بتا کس زاویے سے میں تجھے دیکھا کروں یہ بھی اک شرط سفر ہے ہم سفر کوئی نہ ہو جس کسی بھی راستے کو طے کروں تنہا کروں اے گزرتے وقت تو کب میرے بس میں آئے گا لمحہ پراں بتا کب تک ترا پیچھا کروں حلقۂ احباب بڑھتا جا رہا ہے دن بدن اب میں اپنے آپ کو بھی ...

    مزید پڑھیے

    معصوم خواہشوں کی پشیمانیوں میں تھا

    معصوم خواہشوں کی پشیمانیوں میں تھا جینے کا لطف تو انہیں نادانیوں میں تھا آنکھیں بچھاتے ہر کس و ناکس کی راہ میں یوں جذبۂ خلوص فراوانیوں میں تھا ندی میں پہروں جھانکتے رہتے تھے پل سے ہم کیا بھید تھا جو بہتے ہوئے پانیوں میں تھا پتھر بنے کھڑے تھے تجسس کے دشت میں دل گم طلسم شوق کی ...

    مزید پڑھیے

    ہم فلک کے آدمی تھے ساکنان قریۂ مہتاب تھے

    ہم فلک کے آدمی تھے ساکنان قریۂ مہتاب تھے ہم ترے ہاتھوں میں کیسے آ گئے ہم تو بڑے نایاب تھے وقت نے ہم کو اگر پتھر بنا ڈالا ہے تو ہم کیا کریں یاد ہیں وہ دن بھی ہم کو ہم بھی جب مہر و وفا کا باب تھے زر لٹاتے گزرے موسم آنے والی روشنی لاتی رتیں چند یادیں چند امیدیں ہماری زیست کے اسباب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3