Razzaq Arshad

رزاق ارشد

رزاق ارشد کی غزل

    دنیا داری سے ناواقف کیسا پاگل لڑکا تھا

    دنیا داری سے ناواقف کیسا پاگل لڑکا تھا جب رونے کا موقع ہوتا تب بھی ہنستا رہتا تھا ہم سے کیسی بھول ہوئی تھی ہم نے کیا کیا سوچا تھا بالکل موم سا پگھلا وہ تو جو کندن سا لگتا تھا شک کے سائے پھیل رہے ہیں بستی والے حیراں ہیں اس نے دریا پار کیا ہے تو کیا مٹکا پکا تھا ذہن میں دھندلا ...

    مزید پڑھیے

    ہر آنے والے پل سے ڈر رہا ہوں

    ہر آنے والے پل سے ڈر رہا ہوں کن اندیشوں میں گھر کر رہ گیا ہوں کسی پیاسی ندی کی بد دعا ہوں سمندر تھا مگر صحرا ہوا ہوں بس اب انجام کیا ہے یہ بتا دو بہت لمبی کہانی ہو گیا ہوں وہی میرے لیے اب اجنبی ہیں میں جن کے ساتھ صدیوں تک رہا ہوں کوئی انہونی ہو جائے گی جیسے میں اب ایسی ہی باتیں ...

    مزید پڑھیے

    شاید کبھی ایسا ہو کچھ فلم سا کر جاؤں

    شاید کبھی ایسا ہو کچھ فلم سا کر جاؤں کچھ قتل کروں چن کر اور بعد میں مر جاؤں میں بے سر و ساماں اس بازار تمدن میں ناموس بزرگوں کا نیلام نہ کر جاؤں دنیائے سکوں آگیں پھر زیر قدم ہوگی سانسوں کے سمندر سے بس پار اتر جاؤں ممکن ہے کہ مل جائے وہ آخری سیما تک کیا اے دل پژمردہ میں اس کی ڈگر ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے عذابوں کا کیا پوچھتے ہیں

    ہمارے عذابوں کا کیا پوچھتے ہیں کبھی آپ کمرے میں تنہا رہے ہیں یہ تنہائی بھی ایک ہی ساحرہ ہے میاں اس کی قدرت میں سو وسوسے ہیں ہوئے ختم سگریٹ اب کیا کریں ہم ہے پچھلا پہر رات کے دو بجے ہیں چلو چند پل موند لیں اپنی پلکیں یوں جیسے کہ ہم واقعی سو گئے ہیں ذرا یہ بھی سوچیں کہ راتوں کو ...

    مزید پڑھیے