رضا جونپوری کی غزل

    کیا پوچھتے ہو مجھ کو محبت میں کیا ملا

    کیا پوچھتے ہو مجھ کو محبت میں کیا ملا دونوں جہاں کا درد بہ نام خدا ملا شاید یہی ہے حاصل پایان آرزو اپنا پتہ نہیں ہے جو ان کا پتا ملا افسانۂ حیات کی تکمیل ہو گئی جب ان کے سلسلے سے مرا سلسلہ ملا جب سے نہیں وہ نغمہ زن ساز زندگی اک ایک تار دل کا مجھے بے صدا ملا تم کیا ملے مژہ کے ضیا ...

    مزید پڑھیے

    یہ بات تری چشم فسوں کار ہی سمجھے

    یہ بات تری چشم فسوں کار ہی سمجھے صحرا بھی نظر آئے تو گلزار ہی سمجھے اک بات جسے سن کے حیا آئے چمن کو اک بات جسے نرگس بیمار ہی سمجھے اس طرح دکاں دل کی سجاؤں کہ زمانہ دیکھے تو اسے مصر کا بازار ہی سمجھے کیا شام و سحر اس کی ہے کیا اس کے شب و روز دنیا کو بھی جو کاکل و رخسار ہی ...

    مزید پڑھیے

    جنس گراں کا میں ہوں خریدار دوستو

    جنس گراں کا میں ہوں خریدار دوستو آخر کہاں ہے مصر کا بازار دوستو شائستۂ خطا ہیں مری بے گناہیاں ناکردہ جرم کا ہوں سزاوار دوستو ان گمرہان جادہ و منزل کی خیر ہو رہبر نہ کوئی قافلہ سالار دوستو پر پیچ زندگی کی وہ راہیں کہ الاماں یاد آ گیا ہے کاکل خم دار دوستو اب تک تلاش کرتی ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2