Raunaq Tonkvi

رونق ٹونکوی

رونق ٹونکوی کی غزل

    جس طرح اشک چشم تر سے گرے

    جس طرح اشک چشم تر سے گرے یوں ہی ہم آپ کی نظر سے گرے بے تکلف گلے لگا لیں ہم کاش خنجر تری کمر سے گرے رخ سے ٹپکے جو قطر ہائے عرق پھول سے دامن سحر سے گرے نہ تو صیاد ہے نہ کنج قفس کہیں بجلی میں ابر تر سے گرے دیکھ کر شکل ان کی اے رونقؔ مہر و مہ بھی مری نظر سے گرے

    مزید پڑھیے

    کیا دیکھتے ہیں آپ جھجک کر شراب میں

    کیا دیکھتے ہیں آپ جھجک کر شراب میں پیدا ہے عکس زلف معنبر شراب میں پرتو فگن ہے چشم فسوں گر شراب میں کیا مل گیا ہے فتنۂ محشر شراب میں بد مستیوں کے شوق نے طوفاں اٹھائے ہیں بیٹھے ہیں ہم بہائے ہوئے گھر شراب میں تر دامنوں کو آتش دوزخ سے ہے نجات جامہ ہے شور بور سراسر شراب میں بے یار ...

    مزید پڑھیے

    عالم میں نہ کچھ کثرت انوار کو دیکھیں

    عالم میں نہ کچھ کثرت انوار کو دیکھیں پردہ میں نظر باز رخ یار کو دیکھیں حیرت سے مرے دیکھنے کو دیکھتے ہیں کیا دیکھیں تو وہ اپنے لب و رخسار کو دیکھیں رہنے دیں مجھے گرم فغاں کوچے میں اپنے اپنی بھی وہ کچھ گرمئ بازار کو دیکھیں وہ اس سے زیادہ ہے تو یہ اس سے زیادہ گفتار سنیں اس کی کہ ...

    مزید پڑھیے

    وصل اس سے نہ ہو وصال تو ہو

    وصل اس سے نہ ہو وصال تو ہو کہیں قصے کو انفعال تو ہو نہ سہی لطف کچھ عتاب سہی اس کے دل میں مرا خیال تو ہو کیوں نہ تجھ کو حنا سے ہو رغبت یوں کوئی اور پائمال تو ہو مصلحت ہے طپیدگی دل کی مگر ان کو ادھر خیال تو ہو قول اپنا یہی ہے اے رونقؔ کوئی فن ہو مگر کمال تو ہو

    مزید پڑھیے

    ہم ان کو حال دل اپنا سنائے جاتے ہیں

    ہم ان کو حال دل اپنا سنائے جاتے ہیں وہ بیٹھے سنتے ہیں اور مسکرائے جاتے ہیں وہ بعد قتل بھی خنجر لگائے جاتے ہیں شہید ناز کی شوکت بڑھائے جاتے ہیں خموش محفل اعدا میں دور بیٹھے ہیں غضب ہے تو بھی وہ آنکھوں میں کھائے جاتے ہیں یہ انفعال ہے کس کس جفا گری کے عوض کہ بات بات میں وہ منہ ...

    مزید پڑھیے

    نسخے میں طبیبوں نے لکھا اور ہی کچھ ہے

    نسخے میں طبیبوں نے لکھا اور ہی کچھ ہے بیمار محبت کی دوا اور ہی کچھ ہے اغیار سے تھیں میرے ستانے کی صلاحیں اور میں نے جو پوچھا تو کہا اور ہی کچھ ہے کہتے ہیں وہ گھبرا کے مجھے دیکھ کے غش میں مر جائیں گے یہ ان کو ہوا اور ہی کچھ ہے مانگے کوئی دولت کوئی عزت کوئی جنت اور عاشق بیدل کی دعا ...

    مزید پڑھیے

    ہے زیر زمیں سایہ تو بالائے زمیں دھوپ

    ہے زیر زمیں سایہ تو بالائے زمیں دھوپ دنیا بھی دو رنگی ہے کہیں چھاؤں کہیں دھوپ ہے نور رخ یار زمانہ میں فروزاں کہتے ہیں غلط سب یہ نہیں دھوپ نہیں دھوپ اس طرح کی ضد ہے اسے ہر بات میں مجھ سے کہتا ہوں میں سایہ تو وہ کہتا ہے نہیں دھوپ اللہ رے ترے گرمئ عارض کی شرارت خورشید چھپا شرم سے ...

    مزید پڑھیے

    ہم ہیں ہشیار کیا ارادہ ہے

    ہم ہیں ہشیار کیا ارادہ ہے نگہ یار کیا ارادہ ہے کشتۂ چشم مست ہے اک خلق اے لب یار کیا ارادہ ہے نہیں آئے وہ اور نہیں آتے نالۂ زار کیا ارادہ ہے سعیٔ دل کش خیال جان پرور طلب یار کیا ارادہ ہے مول لیتا ہے درد دے کر دل رونقؔ زار کیا ارادہ ہے

    مزید پڑھیے

    ربط ہو غیر سے اگر کچھ ہے

    ربط ہو غیر سے اگر کچھ ہے اس طرف بھی مگر نظر کچھ ہے بے خبر ہے وہ ہر دو عالم سے جس کو اس شوخ کو خبر کچھ ہے یاں کوئی ماجرا شریک نہیں ہے اگر کچھ تو چشم تر کچھ ہے مٹ گیا قصہ مر گیا عاشق ہو مبارک تمہیں خبر کچھ ہے جستجو ہے وہیں وہیں ہے نظر جلوہ ریزی جدھر جدھر کچھ ہے ہے تماشا بقدر ذوق ...

    مزید پڑھیے

    دن کو ہاں کہہ دیا تو رات نہیں

    دن کو ہاں کہہ دیا تو رات نہیں آپ کی بات کو ثبات نہیں ہجر میں دن تو کٹ ہی جاتا ہے نہیں کٹتی تو ایک رات نہیں کیوں نہ اخلاق سے بری ہو کلام شعر لکھتے ہیں کچھ لغات نہیں کیوں ہراساں ہوں میں دم مشکل کیا وہ حلال مشکلات نہیں ایک بوسہ کی عرض پر رونقؔ کہہ گیا یار پانچ سات نہیں

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2