Ratan Pandorwi

رتن پنڈوروی

رتن پنڈوروی کی غزل

    لطف خودی یہی ہے کہ شان بقا رہوں

    لطف خودی یہی ہے کہ شان بقا رہوں انسان کے لباس میں بن کر خدا رہوں جب مجھ کو میرے سامنے آنے سے عار ہے کس حوصلے پہ تجھ کو خدا مانتا رہوں پردے میں اک جھلک سی دکھانے سے فائدہ جلوے کو عام کر کہ تجھے دیکھتا رہوں اک تو کہ میرے دل ہی میں چھپ کر پڑا رہے اک میں کہ ہر چہار طرف ڈھونڈھتا ...

    مزید پڑھیے

    یہ کون سا مقام ہے اے جوش بے خودی (ردیف .. ن)

    یہ کون سا مقام ہے اے جوش بے خودی رستہ بتا رہا ہوں ہر اک رہنما کو میں دونوں ہی کامیاب ہوئے ہیں تلاش میں ذات خدا ملی مجھے ذات خدا کو میں مٹی اٹھا کے دیکھتا ہوں راہ شوق کی بھولا نہیں ہوں جوش طلب میں فنا کو میں ہستی فنا ہوئی تو حقیقت یہ کھل گئی میں خود بقا ہوں کس لیے ڈھونڈوں بقا کو ...

    مزید پڑھیے

    خواب ہی میں رخ پر نور دکھائے کوئی

    خواب ہی میں رخ پر نور دکھائے کوئی غم میں راحت کا بھی پہلو نظر آئے کوئی سامنے اس کے دل و جان و جگر میں رکھ دوں ہاں مگر ہاتھ میں خنجر تو اٹھائے کوئی اپنے ہی گھر میں ملا ڈھونڈ رہے تھے جس کو اس کے پانے کے لیے خود ہی کو پائے کوئی آ گئی کالی گھٹا جھوم کے مے خانے پر توبہ کہتی ہے کہ مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    پہنچے نہ جو مراد کو وہ مدعا ہوں میں

    پہنچے نہ جو مراد کو وہ مدعا ہوں میں ناکامیوں کی راہ میں خود کھو گیا ہوں میں کہتے ہیں جس کو حسن اسی کا ہے نام عشق دیکھو مجھے بغور کہ شان خدا ہوں میں پردہ اٹھا کہ ہوش کی دنیا بدل گئی حیران ہوں کہ سامنے کیا دیکھتا ہوں میں پیوند خاک ہو کے ملیں سر بلندیاں دشت جنوں میں بن کے بگولا اڑا ...

    مزید پڑھیے

    جدا وہ ہوتے تو ہم ان کی جستجو کرتے

    جدا وہ ہوتے تو ہم ان کی جستجو کرتے الگ نہیں ہیں تو پھر کس کی آرزو کرتے ملا نہ ہم کو کبھی عرض حال کا موقع زباں نہ چلتی تو آنکھوں سے گفتگو کرتے اگر یہ جانتے ہم بھی انہیں کی صورت ہیں کمال شوق سے اپنی ہی جستجو کرتے جو خاک چاک جگر ہے تو پرزے پرزے دل جنوں کے ہوش میں کس کس کو ہم رفو ...

    مزید پڑھیے

    غم کی بستی عجیب بستی ہے

    غم کی بستی عجیب بستی ہے موت مہنگی ہے جان سستی ہے میں اسے کیوں ادھر ادھر ڈھونڈوں میری ہستی ہی اس کی ہستی ہے عالم‌ شوق ہے عجب عالم آسماں پر زمین بستی ہے جان دے کر جو زندگی پائی میں سمجھتا ہوں پھر بھی سستی ہے غم ہے کھانے کو اشک پینے کو عشق میں کیا فراغ دستی ہے خاک ساری کی شان کیا ...

    مزید پڑھیے

    موجوں نے ہاتھ دے کے ابھارا کبھی کبھی

    موجوں نے ہاتھ دے کے ابھارا کبھی کبھی پایا ہے ڈوب کر بھی کنارا کبھی کبھی کرتی ہے تیغ یار اشارہ کبھی کبھی ہوتا ہے امتحان ہمارا کبھی کبھی چمکا ہے عشق کا بھی ستارہ کبھی کبھی مانگا ہے حسن نے بھی سہارا کبھی کبھی طالب کی شکل میں ملی مطلوب کی جھلک دیکھا ہے ہم نے یہ بھی نظارہ کبھی ...

    مزید پڑھیے