Rasikh Irfani

راسخ عرفانی

راسخ عرفانی کی غزل

    گرم ہر لمحہ لہو جسم کے اندر رکھنا

    گرم ہر لمحہ لہو جسم کے اندر رکھنا خشک آنکھیں ہوں مگر دل میں سمندر رکھنا بات نکلے گی جوں ہی گھر سے پرائی ہوگی پاؤں کچھ سوچ کے دہلیز سے باہر رکھنا ظلمت شب میں کہیں خود ہی نہ ٹھوکر کھائے دشمن جاں کے بھی رستے میں نہ پتھر رکھنا زر، زمیں، زور کا سودا جو سمائے سر میں روبرو نقشۂ انجام ...

    مزید پڑھیے

    کسی دراز میں رکھنا کہ طاق پر رکھنا

    کسی دراز میں رکھنا کہ طاق پر رکھنا مرے خطوط محبت سنبھال کر رکھنا کسی بھی دور میں شاید میں تیرے کام آؤں جدا ہو شوق سے کچھ رابطہ مگر رکھنا گھٹائیں یاس کی چھائیں گی چھٹ بھی جائیں گی ہجوم درد میں قابو حواس پر رکھنا خدا کرے کہ ملے تجھ کو منزل مقصود فراز پا کے نشیبوں پہ بھی نظر ...

    مزید پڑھیے

    آس حسن گمان سے ٹوٹی

    آس حسن گمان سے ٹوٹی شاخ پھل کے نشان سے ٹوٹی مل گئی خاک ہو کے مٹی میں اینٹ جو بھی مکان سے ٹوٹی عرض احوال نا شناسوں سے رگ انا کی زبان سے ٹوٹی جس پہ دار و مدار کشتی تھا ڈور وہ بادبان سے ٹوٹی مسئلے دوستی کے حل نہ ہوئے گفتگو درمیان سے ٹوٹی دست دشمن سے تیر کیا چھوٹا ایک بجلی کمان سے ...

    مزید پڑھیے

    کھنڈر میں دفن ہوئی ہیں عمارتیں کیا کیا

    کھنڈر میں دفن ہوئی ہیں عمارتیں کیا کیا لکھی ہیں کتبۂ دل پر عبارتیں کیا کیا حصار برف میں رہنا کبھی سرابوں میں سفر کے شوق نے سونپی سفارتیں کیا کیا تلاش لفظ میں عمروں کی کاوشوں کا ثمر اندھیرے غار میں گھومیں بصارتیں کیا کیا کہیں بدن کے ہیں سودے کہیں ضمیروں کے ہوئی ہیں شہر میں اب ...

    مزید پڑھیے

    کتنی ٹھنڈی تھی ہوا قریۂ برفانی کی

    کتنی ٹھنڈی تھی ہوا قریۂ برفانی کی جم گئی دل میں کسک شام زمستانی کی حادثہ کوئی نیا راہ پہ گزرا ہوگا دھول ہر چہرے پہ بکھری ہے پریشانی کی میں جہاں جاؤں وہیں موت کی تحویل میں ہوں تیغ اک لٹکی ہے ہر سانس پہ نگرانی کی میرے تیور پہ مرا نام و نسب کندہ ہے دل کا آئینہ ہے تختی مری پیشانی ...

    مزید پڑھیے

    سایہ سا اک خیال کی پہنائیوں میں تھا

    سایہ سا اک خیال کی پہنائیوں میں تھا ساتھی کوئی تو رات کی تنہائیوں میں تھا ہر زخم میرے جسم کا میرا گواہ ہے میں بھی شریک اپنے تماشائیوں میں تھا غیروں کی تہمتوں کا حوالہ بجا مگر میرا بھی ہاتھ کچھ مری رسوائیوں میں تھا ٹوٹے ہوئے بدن پہ لکیروں کے جال تھے قرنوں کا عکس عمر کی ...

    مزید پڑھیے

    جواں رتوں میں لگائے ہوئے شجر اپنے

    جواں رتوں میں لگائے ہوئے شجر اپنے نشان ثبت رہیں گے ڈگر ڈگر اپنے گھٹائیں ٹوٹ کے برسیں جوں ہی کھلے بادل سکھا رہے تھے پرندے بھی بال و پر اپنے حروف پیار کے لکھے گئے صبا پر بھی قلم کے بل پہ ہیں چرچے نگر نگر اپنے عجیب لوگ ہیں مسمار کر کے شہروں کو بسا رہے ہیں خلاؤں میں جا کے گھر ...

    مزید پڑھیے

    میں جنگ جیت کے جبر و انا کی ہار گیا

    میں جنگ جیت کے جبر و انا کی ہار گیا عدو پہ رحم کا احساس مجھ کو مار گیا امیر شہر کے عفو و کرم کو کیا کہیے کھلے وہ لوگ کہ خوف صلیب و دار گیا غرور کثرت لشکر نہ میرے کام آیا میں سو رہا تھا کہ شب خوں غنیم مار گیا مرا نصیب کہ بکھری تھی ڈال ڈال مری کوئی خزاں کا بگولا مجھے سنوار گیا صدی ...

    مزید پڑھیے

    اندھیروں میں اجالے کھو رہے ہیں

    اندھیروں میں اجالے کھو رہے ہیں نگر کے دیپ مدھم ہو رہے ہیں ہوا میں اڑ رہی ہیں سرخ چیلیں کبوتر گھونسلوں میں سو رہے ہیں بہر جانب تعفن بڑھ رہا ہے انوکھی فصل دہقاں بو رہے ہیں عجب ارماں ہے تعمیر مکاں کا کئی صدیوں سے پتھر ڈھو رہے ہیں سر کوہ تمنا کون پہنچے پرانے زخم اب تک دھو رہے ...

    مزید پڑھیے