نہ جانے کب بسر ہوئے نہ جانے کب گزر گئے
نہ جانے کب بسر ہوئے نہ جانے کب گزر گئے خوشی کے انتظار میں جو روز و شب گزر گئے ہر آنے والے شخص کا دباؤ میری سمت تھا میں راستے سے ہٹ گیا تو سب کے سب گزر گئے مرے لیے جو وقت کا شعور لے کے آئے تھے مجھے خبر ہی تب ہوئی وہ لمحے جب گزر گئے سمندروں کے ساحلوں پہ خاک اڑ رہی ہے اب جو تشنگی کی آب ...