Rashk Khaleeli

رشک خلیلی

رشک خلیلی کی غزل

    نہ جانے کب بسر ہوئے نہ جانے کب گزر گئے

    نہ جانے کب بسر ہوئے نہ جانے کب گزر گئے خوشی کے انتظار میں جو روز و شب گزر گئے ہر آنے والے شخص کا دباؤ میری سمت تھا میں راستے سے ہٹ گیا تو سب کے سب گزر گئے مرے لیے جو وقت کا شعور لے کے آئے تھے مجھے خبر ہی تب ہوئی وہ لمحے جب گزر گئے سمندروں کے ساحلوں پہ خاک اڑ رہی ہے اب جو تشنگی کی آب ...

    مزید پڑھیے

    خزاں کی بات نہ ذکر بہار کرتے ہیں

    خزاں کی بات نہ ذکر بہار کرتے ہیں تو لوگ کیسے غموں کا شمار کرتے ہیں یہ اہل شہر جسے خاکسار کرتے ہیں بگولہ کہہ کے اسے بے وقار کرتے ہیں ابھی ہمیں کسی منزل کی جستجو ہی نہیں سفر برائے سفر اختیار کرتے ہیں یہ کس کے وصل کی خوشبو ہے رہ گزاروں میں کہ لوگ شام و سحر انتظار کرتے ہیں اگرچہ ...

    مزید پڑھیے

    شعور زیست سہی اعتبار کرنا بھی

    شعور زیست سہی اعتبار کرنا بھی عجب تماشہ ہے لیل و نہار کرنا بھی حدیث غم کی طوالت گراں سہی لیکن کسی کے بس میں نہیں اختصار کرنا بھی بنا کے کاغذی گل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اک ہنر ہے خزاں کو بہار کرنا بھی اب اس نظر سے تری راہ دیکھتا ہوں میں ترا کرم ہے ترا انتظار کرنا بھی گزارنے کو تو ...

    مزید پڑھیے