Rasheed Amjad

رشید امجد

پاکستان کے معروف فکشن رائٹر ، نقاد اور دانشور۔’ پرائڈ آف پرفارمینس ‘ اعزاز یافتہ۔ کئی اہم ادبی رسالوں کے مدیر رہے۔

Well known fiction writer, critic and intellectual from Pakistan, editor of several journals and recipient of the coveted title Pride of Performance.

رشید امجد کی رباعی

    خزاں گزیدہ

    قیدی کو اس حالت میں لایا گیا کہ گلے میں طوق اور پاﺅں میں زنجیریں، زنجیروں کی چھبن سے پاﺅں جگہ جگہ سے زخمی ہوگئے تھے اور ان سے خون رس رہا تھا۔ طوق کے دباﺅ سے گردن کے گرد سرخ حلقہ بن گیا تھا جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا تھا۔ قیدی طوق کے بوجھ اور پاﺅں کی زنجیروں کی وجہ سے سیدھا کھڑا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    بے خوشبو عکس

    داستان گو اس کہانی کو یوں سنا تا ہے کہ جب میں شہر میں داخل ہوا تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، ہر طرف ایک شور اور ہنگامہ تھا۔ شہر کے کل مرد، عورتیں ، بوڑھے، جوان اور بچے ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ پکڑے بجا رہے تھے۔ شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں ایک شیر بدحواسی کے عالم میں کبھی ایک ...

    مزید پڑھیے

    سناٹا بولتا ہے

    ہم سب زمانے کے کاغذ پر دم توڑتے ہوئے وہ حرف ہیں جنہیں بے معنویت کی دیمک چاٹ گئی ہے۔ وہ ان دم توڑتے ہوئے حرفوں میں ایک ایسا کردار ہے جس کا کوئی نام نہیں۔ ایک زمانے میں اس کا ایک نام تھا، لیکن مسلسل بولے جانے کے بعد اب اسے اپنے نام کے حرفوں میں کوئی دلکشی نظر نہیں آتی، اس لیے اس نے ...

    مزید پڑھیے

    چلتے رہنا بھی اِک موت ہے

    جوں ہی رات دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوتی ہے، کارنس پر رکھا مجسمہ آہستہ سے نیچے اترتا ہے اور اس کے سرہانے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے، وہ پوچھتا ہے۔۔۔ ’’کون؟‘‘ مجسمہ کہتا ہے۔۔۔ ’’میں ؟‘‘ ’’میں کون؟‘‘ ’’میں ماضی ہوں۔‘‘ وہ سر اٹھا کر اسے دیکھتا ہے۔۔۔ ’’لیکن میں تمہیں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دریچے سے دور

    کبھی وہ زمانہ تھا کہ کہانی شفیق ماں کی طرح اسے لوریاں دیتی تھی۔ اس وقت وہ ورکشاپ میں کام کرتا تھا۔ دن بھر ہتھوڑوں کی آوازوں میں کرچ کرچ ہو کر جب شام کو گھر لوٹتا تو کہانی دبے پاؤں اس کے پیچھے آتی اور کسی سنسان سڑک پر اس کا ہاتھ تھام کر یوں اس کے ساتھ ساتھ چلتی جیسے کوئی محبوبہ۔۔۔ ...

    مزید پڑھیے

    جنگل شہر ہوئے

    برگد کا وہ پیڑ، جہاں اس سے ملاقات ہوئی تھی، بہت پیچھے رہ گیا ہے اور شناسائی کی لذت صدیوں کی دھول میں اَٹ کر بدمزہ ذائقہ بن گئی ہے، ملاقات کی یاد۔۔۔ بس ایک دھندلی سی یاد ہے۔ جب وہ اسے کریدنے کی کوشش کرتا ہے تو دور کہیں ایک مدھم سی آواز سنائی دیتی ہے اور اس کے اندر بہت نیچے کوئی چیز ...

    مزید پڑھیے

    ست رنگے پرندے کے تعاقب میں

    ناشتہ کرتے ہوئے اچانک ہی خیال آیا کہ پچھلے ٹیرس پر پڑی چارپائی کو بنوانا چاہیے۔ محلے والے گھر سے اس نئے گھر میں منتقل ہوتے ہوئے اپنا بہت سا پرانا سامان وہیں بانٹ بونٹ آئے تھے۔ بس یہ ایک چارپائی کسی طرح ساتھ آگئی۔ کچھ عرصہ پچھلے ٹیرس پر دھوپ میں بیٹھنے کے کام آئی۔ پھرزندگی ...

    مزید پڑھیے

    دل دریا

    ایک ٹھاٹھیں مارتا دریا سامنے ہے اور پار کرنے کے لیے کوئی چیز نہیں۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسے پار کیا ہی نہ جائے اور اسی کنارے چلتے چلے جائیں ، شاید کہیں کوئی راستہ مل جائے یا ادھر کا کنارہ کسی دوسرے کنارے سے ہم آہنگ ہو جائے۔ لیکن کب تک؟ کبھی نہ کبھی تو پار جانا ہو گا، دریا ...

    مزید پڑھیے

    ایک کہانی اپنے لیے

    زندگی کے طویل خارزار میں وہ مجھے چند لمحوں کے لیے ملتی ہے اور اس کے بعد اداسی کی لمبی شاہراہ ہے جس پر میں اکیلے ہی سفر کرتا ہوں ، یہ چند لمحوں کی ملاقات ہی اس طویل خارزار میں میرا زادِ راہ ہے۔ مجھے لگتا ہے، میری زندگی ایک نہ ختم ہونے والی اداس شام ہے جس کے زرد جھروکوں سے وہ کبھی ...

    مزید پڑھیے

    ایک نسل کا تماشا

    مجھے معلوم نہیں کہ میرا اس کہانی سے کیا تعلق ہے اور یہ کہانی کس نے مجھے سنائی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں اس کہانی کے ایک ایک منظر سے واقف ہوں اور اس لمحے کو بھی دیکھ سکتا ہوں جب ایک روز گزرتے ہوئے بادشاہ کی نظر ایک درویش پر پڑی۔ بادشاہ نے گھوڑے کی لگام کھینچی اور درویش کو مخاطب کر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2