رمزی آثم کی غزل

    زخم اس زخم پہ تحریر کیا جائے گا

    زخم اس زخم پہ تحریر کیا جائے گا کیا دوبارہ مجھے دلگیر کیا جائے گا اس کی آنکھوں میں کھڑا دیکھ رہا ہوں خود کو کون سے پل مجھے تسخیر کیا جائے گا میری آنکھوں میں کئی خواب ادھورے ہیں ابھی کیا مکمل انہیں تعبیر کیا جائے گا مجھ کو بیکار میں حیرت نے پکڑ رکھا ہے شہر تو دشت میں تعمیر کیا ...

    مزید پڑھیے

    ہمارا خواب اگر خواب کی خبر رکھے

    ہمارا خواب اگر خواب کی خبر رکھے تو یہ چراغ بھی مہتاب کی خبر رکھے اٹھا نہ پائے گی آسودگی تھکن کا بوجھ سفر کی گرد ہی اعصاب کی خبر رکھے تمام شہر گرفتار ہے اذیت میں کسے کہوں مرے احباب کی خبر رکھے نہیں ہے فکر اگر شہر کی مکانوں کو تو کوئی دشت ہی سیلاب کی خبر رکھے

    مزید پڑھیے

    مجھ میں خوشبو بسی اسی کی ہے

    مجھ میں خوشبو بسی اسی کی ہے جیسے یہ زندگی اسی کی ہے وہ کہیں آس پاس ہے موجود ہو بہ ہو یہ ہنسی اسی کی ہے خود میں اپنا دکھا رہا ہوں دل اس میں لیکن خوشی اسی کی ہے یعنی کوئی کمی نہیں مجھ میں یعنی مجھ میں کمی اسی کی ہے کیا مرے خواب بھی نہیں میرے کیا مری نیند بھی اسی کی ہے

    مزید پڑھیے

    نیند آتی ہے مگر خواب نہیں آتے ہیں

    نیند آتی ہے مگر خواب نہیں آتے ہیں مجھ سے ملنے مرے احباب نہیں آتے ہیں شہر کی بھیڑ سے خود کو تو بچا لاتا ہوں گو سلامت مرے اعصاب نہیں آتے ہیں تشنگی دشت کی دریا کو ڈبو دے نہ کہیں اس لیے دشت میں سیلاب نہیں آتے ہیں ڈوبتے وقت سمندر میں مرے ہاتھ لگے وہ جواہر جو سر آب نہیں آتے ہیں یا ...

    مزید پڑھیے

    صرف بچے ہی نہیں شور مچانے آتے (ردیف .. ن)

    صرف بچے ہی نہیں شور مچانے آتے سیر کرنے یہاں بیمار بھی آ جاتے ہیں دل بھی ہو جاتا ہے خوش اپنا تماشا کر کے اور نبھانے ہمیں کردار بھی آ جاتے ہیں کس قدر دکھ ہے تمہیں دل کے اجڑ جانے کا عشق میں کام تو گھربار بھی آ جاتے ہیں ہم بھی آ جاتے ہیں بازار میں آنکھیں لے کر شام ہوتے ہی خریدار بھی ...

    مزید پڑھیے

    پھول کھلتے ہیں تالاب میں تارا ہوتا

    پھول کھلتے ہیں تالاب میں تارا ہوتا کوئی منظر تو مری آنکھ میں پیارا ہوتا ہم پلٹ آئے مسافت کو مکمل کر کے اور بھی چلتے اگر ساتھ تمہارا ہوتا ہم محبت کو سمندر کی طرح جانتے ہیں کود ہی جاتے اگر کوئی کنارہ ہوتا ایک ناکام محبت ہی ہمیں کافی ہے ہم دوبارہ بھی اگر کرتے خسارہ ہوتا کتنی ...

    مزید پڑھیے

    دشت کی پیاس کسی طور بجھائی جاتی

    دشت کی پیاس کسی طور بجھائی جاتی کوئی تصویر ہی پانی کی دکھائی جاتی ایک دریا چلا آیا ہے مرے ساتھ اسے روکنے کے لیے دیوار اٹھائی جاتی ہم نئے نقش بنانے کا ہنر جانتے ہیں ایسا ہوتا تو نئی شکل بنائی جاتی اب یہ آنسو ہیں کہ رکتے ہی نہیں ہیں ہم سے دل کی آواز ہی پہلے نہ سنائی جاتی صرف ...

    مزید پڑھیے

    ساتھ رونے نہ سہی گیت سنانے آتے

    ساتھ رونے نہ سہی گیت سنانے آتے تم مصیبت میں مرا ہاتھ بٹانے آتے عمر بھر جاگ کے آنکھوں کی حفاظت کی ہے جانے کب لوگ مرے خواب چرانے آتے کھینچ لائی ہے ترے دشت کی وحشت ورنہ کتنے دریا ہی مری پیاس بجھانے آتے ساتھ تو خیر نبھانا تمہیں آتا ہی نہیں کم سے کم راہ میں دیوار اٹھانے آتے خوف آتا ...

    مزید پڑھیے

    تھکن کا بوجھ بدن سے اتارتے ہیں ہم

    تھکن کا بوجھ بدن سے اتارتے ہیں ہم یہ شام اور کہیں پر گزارتے ہیں ہم قدم زمین پہ رکھے ہمیں زمانہ ہوا سو آسمان سے خود کو اتارتے ہیں ہم ہماری روح کا حصہ ہمارے آنسو ہیں انہیں بھی شوق اذیت پہ وارتے ہیں ہم ہماری آنکھ سے نیندیں اڑانے لگتا ہے جسے بھی خواب سمجھ کر پکارتے ہیں ہم ہم اپنے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اپنی فکر نہ اپنا خیال کرتا ہوں

    کچھ اپنی فکر نہ اپنا خیال کرتا ہوں تو کیا یہ کم ہے تری دیکھ بھال کرتا ہوں مری جگہ پہ کوئی اور ہو تو چیخ اٹھے میں اپنے آپ سے اتنے سوال کرتا ہوں اگر ملال کسی کو نہیں مرا نہ سہی میں خود بھی کون سا اپنا ملال کرتا ہوں یہ چاند اور ستارے رفیق ہیں میرے میں روز ان سے بیاں اپنا حال کرتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2