Rajinder Singh Bedi

راجندر سنگھ بیدی

اردو کے چند ممتاز ترین افسانہ نگاروں میں شامل، منٹو کے ہم عصر ، ہندوستانی مزاج اور اساطیر ی حوالوں سے کہانیاں بنانے کے لیے معروف۔ ناول ، ڈرامے اور فلموں کے لیے ڈائلاگ اور کہانیاں بھی لکھیں۔

One of the most prominent short story writers and novelists of Urdu, a contemporary of Manto, known for his narratives representing Indian ethos and use of mythological references. He also wrote plays and penned dialogues and stories for films.

راجندر سنگھ بیدی کی رباعی

    لچھمن

    لچھمن نے کنوئیں میں سے پانی کی سترہویں گاگر نکالی۔ اس دفعہ پانی سے بھری ہوئی گاگر کو اٹھاتے ہوئے اس کے دانتوں سے بے نیاز جبڑے آپس میں جم گئے۔ جسم پر پسینہ چھوٹ گیا۔ اس نے داہنے ہاتھ سے نندو کی بہو،گوری کی گاگر کو تھاما اور چرخی پر اڑی ہوئی رسّی کو دوسرے ہاتھ سے اتارا۔ ایک دفعہ ...

    مزید پڑھیے

    ببل

    درباری لال، شام گھر ہی میں بیٹھا، سیتا کے ساتھ بیکار ہو رہا تھا۔ کسی کے ساتھ بیکار ہونا اس حالت کو کہتے ہیں جب آدمی دیکھنے میں ایوننگ نیوز یاغالب کی غزلیں پڑھ رہا ہو لیکن خیالوں میں کسی سیتا کے ساتھ غرق ہو۔ سیتا نے تو کہا تھا وہ ٹھیک چھ بجے ارورا سنیما کی طرف سے آنے والی سڑک کے ...

    مزید پڑھیے

    جب میں چھوٹا تھا

    ان دنوں ہم جہانگیرآباد میں رہا کرتے تھے۔ہم لوگوں کا وہاں ایک پرانا لیکن بہت بڑا مکان ہوتا تھا، جسے ہم پرتھوی بل کہا کرتے تھے۔ پرتھوی بل زمین کی طاقت، ہر جگہ بالعموم یکساں ہوتی ہے۔ لیکن شہر کی مٹی میں ہمیں وہ طاقت نہیں ملتی، جو پرتھوی بل میں میسر آتی تھی۔ وہاں کی کشش ثقل، ایک چیز ...

    مزید پڑھیے

    اغوا

    ’’آلی ۔۔۔ آلی ۔۔۔‘‘ دلاور سنگھ نے زور سے پکارا۔ آلی ۔۔۔ علی جو، ہمارے ٹھیکے کا کشمیری مزدور تھا۔ منشی دلاور سنگھ کی آواز سن کر علی جو ایک پل کے لیے رکا۔ ڈوبتے ہوئے سورج کی کرنیں ابھی تک لیموں کی طرح ترش تھیں اور علی جو کی سرخ رگوں سے بھری ہوئی آنکھوں نے انھیں چکھنے سے انکار کر ...

    مزید پڑھیے

    لمس

    یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی بات ہجوم کے بہت سے آدمیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔ ان کے سامنے رسی کے حلقے ہیں۔ پتھر کے ایک بڑے سے چبوترے پر ایک مجسمہ بڑی سی چادر میں لپٹا ہوا تھا، جسے وہ بار بار دیکھتے، دیکھ دیکھ کر آنکھیں جھپکتے، بے اطمینانی ظاہر کرتے ہوئے جمائیاں لیتے، اور پھر ...

    مزید پڑھیے

    غلامی

    آخر تیتیس سال کی طویل ملازمت کے بعد پنشن پاکر پولھو رام گھر پہنچا۔ گھر کے سب چھوٹے بڑے اس کے منتظر تھے اور اس کی بیوی سرسوں کا تیل لیے کھڑی تھی۔کب پولھو رام آئے اور وہ دہلیز پھاندنے سے پہلے چوکھٹ پر تیل گرا دے اور پھر نوبت، اپنے بڑے بیٹے کو اشارہ کرے کہ وہ پھولوں کا ہار اپنے بوڑھے ...

    مزید پڑھیے

    وہ بڈھا

    میں نہیں جانتی۔ میں تو مزے میں چلی جا رہی تھی۔ میرے ہاتھ میں کالے رنگ کا ایک پرس تھا، جس میں چاندی کے تار سے کچھ کڑھا ہوا تھا اور میں ہاتھ میں اسے گھما رہی تھی۔ کچھ دیر میں اچک کر فٹ پاتھ پر ہو گئی، کیو ں کہ مین روڈ پر سے ادھر آنے والی بسیں اڈے پر پہنچنے اور ٹائم کیپر کو ٹائم دینے کے ...

    مزید پڑھیے

    دس منٹ بارش میں

    ابوبکر روڈ شام کے اندھیرے میں گم ہو رہی ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے، جیسے کوئی کشادہ سا راستہ کسی کوئلے کی کان میں جا رہا ہے۔ سخت بارش میں ورونٹا کی باڑ، سفرینا کا گلاب، قطب سید حسین مکّی کے مزار شریف کے کھنڈر میں، ایک کھلتے ہوئے مشکی رنگ کی گھوڑی جس کی پشت نم آلود ہو کر سیاہ ساٹن کی ...

    مزید پڑھیے

    منگل اشٹکا

    ۱۲ کارتک۔ تلسی بیاہ کا تہوار تھا۔ اسی دن نندہ اور وجے کا بیاہ ہوا۔ نندہ کے چہرے کی سپیدی اور سرخی کسی رنگ ریز کے نا تجربہ کار شاگرد کے سرخ رنگے ہوئے کپڑے کی مانند تھی اور وہ کسی مستور جذبے سے سر تا پا کانپ رہی تھی۔ اگر اس خود فراموشی میں صرف اسے اتنا سا خیال رہتا کہ وہ کہاں کھڑی ...

    مزید پڑھیے

    گھر میں بازار میں

    دیوار پر لٹکتے ہوئے ’’شیکوشا‘‘ نے صبح کے آٹھ بجا دیے۔ درشی نے آنکھ کھولی اور ایک سوالیہ نگاہ سے نئے آبنوسی کلاک کی طرف دیکھا، جس کی آٹھ سریلی ضربیں اس کے ذہن میں گونج پیدا کرتی ہوئی ہر لحظہ مدھم ہو رہی تھیں۔۔۔ ایک گھٹیا سا قالین تھا اور یہی ایک کلاک جو درشی کے استاد نے اسے شادی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4