Rajinder Manchanda Bani

راجیندر منچندا بانی

جدید اردو غزل کی طاقت ور ترین آوازوں میں شامل

One of the most powerful voices of the post-independence Urdu ghazal

راجیندر منچندا بانی کی نظم

    ن م راشدؔ کے انتقال پر

    یہ رات ہے کہ حرف و ہنر کا زیاں کدہ اظہار اپنے آپ میں مہمل ہوئے تمام اب میں ہوں اور لمحۂ لاہوت کا سفیر محو دعا ہوا مرے اندر کوئی فقیر سینے پہ کیسا بوجھ ہے ہوتا نہیں سبک ہونٹوں کے زاویوں میں پھنسا ہے ''خدا...خدا'' کیا لفظ ہے کہ جیبھ سے ہوتا نہیں ادا کمزور ہاتھ ہیں کہ نہیں اٹھتے سوئے ...

    مزید پڑھیے

    آخری بس

    آخری بس تیرتی سی جا رہی ہے شب کی فرش مرمریں پر شبنم آگیں دھند کی نیلی گپھا میں بس کے اندر ہر کوئی بیٹھا ہے اپنا سر جھکائے خستگی دن کی چبائے کیا ہوئی اک دوسرے سے بات کرنے کی وہ راحت وہ مسرت آج دنیا آخری بس کی طرح محو سفر ہے سب مسافر قرب کے احساس سے نا آشنا بیٹھے ہوئے ہیں اب کسی کو ...

    مزید پڑھیے

    نہ قائل ہوتے ہیں نہ زائل

    بنجر چہرے جن پر نہ بارش کی پہلی بوند کا اظہار اگتا ہے نہ آتے جاتے لمحوں کا کوئی اقرار انکار نہ اطمینان نہ ڈر آنکھیں جن میں کوئی نگاہ پلکوں سے نہیں الجھتی باقی حواس بھی خوشبو اور خوشبو کی شہرت سے آواز اور آواز کی قوت سے یکسر عاری ہیں کون ہیں یہ لوگ کس موج فضولیت کی زد میں آ گئے ...

    مزید پڑھیے

    معمول

    ایک بڑھیا شب گئے دہلیز پر بیٹھی ہوئی تک رہی ہے اپنے اکلوتے جواں بچے کی راہ سو چکا سارا محلہ اور گلی کے موڑ پر بجھ چکا ہے لیمپ بھی سرد تاریکی کھڑی ہے جیسے دیوار مہیب بوڑھی ماں کے جسم کے اندر مگر جگمگاتی ہیں ہزاروں مشعلیں آنے والا لاکھ بے ہوشی کی حالت میں ہو لیکن راستہ گھر کا کبھی ...

    مزید پڑھیے

    ادھر کی آواز اس طرف ہے

    اجاڑ سی دھوپ آدھی ساعت کہ نا مکمل علامتیں داغ داغ آنکھیں یہ ٹیلہ ٹیلہ اترتی بھیڑیں کہاں ہے جو ان کے ساتھ ہوتا تھا اک فرشتہ کٹی پھٹی زرد شام سے کون بڑھ کے پوچھے کہ ایک اک برگ آگہی کا ہوا کے پیلے لرزتے ہاتھوں سے گر رہا ہے تمام موسم بکھر رہا ہے کہ دھیمے دھیمے سے آتی شب کا یہ آبی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی خواب خواب سا فاصلہ

    لب زرد پر کوئی حمد ہے کہ گلہ کہو مری پیلی آنکھ میں بجھتے خوں کا الاؤ ہے کہ طلا کہو مرے دست و بازو میں آج بھی کوئی لمس قید ہے اور سینے کی بے وقاری کے اندروں کوئی حرف اپنا ہی صید ہے کہ جسے رسائی نہ مل سکی یہ مری جھجھک کی برید ہے کہ صلہ کہو کبھی ایک بات نہ کہہ سکوں کبھی اب کہ چیخ مجھے ...

    مزید پڑھیے

    رقص

    ناچ ہاں ناچ کہ ہر شورش و ہنگامہ پر پھیل جائے تری جھن جھن کا حسیں پیراہن ناچ ہاں ناچ کہ سینے میں ترے ایک موتی کی طرح راز زمانے کا سمٹ کر رہ جائے بازوؤں کو کبھی ہونے دے دراز جمع کرنے دے خد و خال کبھی اپنی حسیں آنکھوں کو فرش آواز پہ رکھ اپنے پر اسرار قدم اور چمکتے ہوئے سنگیت کا جادو پی ...

    مزید پڑھیے

    آخری موسم

    زماں مکاں کے ہزار ہنگامے قلب خستہ کو اس طرح ڈھیر کر گئے ہیں کہ جیسے اک خشک خشک پتے کی کپکپاتی ہوئی رگوں سے چپک رہی ہو تمام ماحول کے مناظر کی ماندگی بھی ہر ایک جھونکے کی خستگی بھی یہ خشک پتہ ہوا کے مبہوت دائروں میں زمین سے سر پٹک کے اپنی تمام رنگت بدل چکا ہے اب ایک پتھر کے یخ زدہ اور ...

    مزید پڑھیے

    جینا ہے مجھے

    پھر خیال آیا کہ جینا ہے مجھے جس طرح ایک تھکا ماندہ پرندہ لاکھ ہو برف بہ جاں لاکھ ہو آہستہ سفر اک بلندی پہ تو ہوتا ہے ضرور زیر پرواز کوئی گہرا سمندر ہے تو کیا اسے اوپر سے گزر جانا ہے

    مزید پڑھیے

    حرف غیر

    میرے احباب میں اک شاعر کم نام بھی ہے ذہن ہے جس کا عجب راحت گاہ حادثے ایک زمانے کے جہاں آ کے سکوں پاتے ہیں جب چمک اٹھتے ہیں کچھ حادثے اظہار کی پیشانی پر وہ سمٹتا سا چلا جاتا ہے یعنی ہر نظم اسے اور بھی بیگانہ بنا دیتی ہے شب نئی نظم لیے بیٹھا تھا احباب کے بیچ اور سب ہمہ تن گوش اسے سنتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2