Rajendra Kalkal

راجندر کلکل

راجندر کلکل کی غزل

    اٹھا خود جس سے جاتا بھی نہیں ہے

    اٹھا خود جس سے جاتا بھی نہیں ہے خدا اس کو اٹھاتا بھی نہیں ہے نہیں اٹھتی ہیں بے شک اس کی نظریں مگر سر وہ جھکاتا بھی نہیں ہے کرے گا دیکھ کر وہ آئنہ کیا کبھی جو مسکراتا بھی نہیں ہے ہوئی جس نام سے نفرت وہ اس کو کتابوں سے مٹاتا بھی نہیں ہے میں اس کا درد کلکلؔ کیسے بانٹوں کہ جو چھالے ...

    مزید پڑھیے

    چلو مانا کہ پھرتیلے نہیں تھے

    چلو مانا کہ پھرتیلے نہیں تھے مگر اتنے بھی ہم ڈھیلے نہیں تھے خیالوں میں سجا لیتے تھے ان کو ہمارے شوق خرچیلے نہیں تھے مزہ منزل کو پا کر بھی نہ آیا سفر میں ریت کے ٹیلے نہیں تھے حویلی میں سبھی رہتے تھے مل کر تب اتنے رشتے زہریلے نہیں تھے کبھی آتے تھے خط ان کے بھی کلکلؔ وہ پہلے اتنے ...

    مزید پڑھیے

    وہ جتنا مجھے آزماتا رہے گا

    وہ جتنا مجھے آزماتا رہے گا یقیں میرا اتنا گنواتا رہے گا کبھی پوچھ لے تو رضا اس کے من کی کہاں تک تو اپنی چلاتا رہے گا یہ حیوانیت جرم کرتی رہے گی شرافت پہ الزام آتا رہے گا زمانہ ہے بہرا بچے کیسے عزت کوئی شور کب تک مچاتا رہے گا زمانہ ہوا خود میں چالاک اتنا تو جب تک ڈرے گا ڈراتا ...

    مزید پڑھیے

    دکھ سے غیروں کے پگھلتا کون ہے

    دکھ سے غیروں کے پگھلتا کون ہے خود سے باہر اب نکلتا کون ہے برف سی تاثیر سب کی ہو گئی ظلم سہہ کر اب ابلتا کون ہے غیر کو ہی سب بدلنے میں رہے اپنی فطرت کو بدلتا کون ہے چھوڑ دو اس کو اسی کے حال پر عشق میں پڑ کر سنبھلتا کون ہے زندگی بھر جو نہ کھائے ٹھوکریں کھول کر آنکھیں یوں چلتا کون ...

    مزید پڑھیے

    مرے کہنے میں پٹواری نہیں ہے

    مرے کہنے میں پٹواری نہیں ہے زمیں میری ہے سرکاری نہیں ہے سمندر تو ہوا کھاری تو کیسے ندی جب کوئی بھی کھاری نہیں ہے بھلے الزام خود پر لے لیا ہے مگر غلطی مری ساری نہیں ہے زمیں پر چاہے کچھ بن جا تو لیکن خدا بننا سمجھ داری نہیں ہے دکھاؤں تو ہنر کیسے میں کلکلؔ ابھی آئی مری باری نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دل یہ کرتا ہے آج میرا بھی

    دل یہ کرتا ہے آج میرا بھی پوچھ لے وہ مزاج میرا بھی ان کی دستار کے بچانے میں گر گیا سر سے تاج میرا بھی یوں تو نسخے ہزار تھے ان پر تھا مرض لا علاج میرا بھی آج دشمن ہے جان کا میری تھا کبھی یہ سماج میرا بھی مجھ پہ کرتے رہے حکومت وہ خود پہ کب ہوگا راج میرا بھی

    مزید پڑھیے

    وہ سوالات مجھ پر اچھالے گئے

    وہ سوالات مجھ پر اچھالے گئے چاہ کر بھی نہ جو مجھ سے ٹالے گئے تھا یہ روشن جہاں روشنی ان سے تھی وہ گئے ساتھ ان کے اجالے گئے خط تو یوں سیکڑوں میں نے ان کو لکھے جو بھی دل سے لکھے وہ سنبھالے گئے جب زباں بند تھی روٹی ملتی رہی کھول دی پھر تو منہ کے نوالے گئے خار راہوں میں غیروں نے ڈالے ...

    مزید پڑھیے

    خواب آنکھوں کو ہماری جو دکھائے آئنہ

    خواب آنکھوں کو ہماری جو دکھائے آئنہ خون کے آنسو وہی ہم کو رلائے آئنہ آدمی کی فطرتیں جیسے سمجھتا ہو سبھی آدمی کے ساتھ ایسے مسکرائے آئنہ بانٹنا تو چاہتا ہے دکھ بزرگوں کے مگر جھریوں کو کس طرح ان کی چھپائے آئنہ آئنے کے سامنے سے کوئی تو ہٹتا نہیں اور کسی کو خواب تک یہ ڈرائے ...

    مزید پڑھیے