رحمان حفیظ کی غزل

    مرے پس رو کو اندازہ نہیں تھا

    مرے پس رو کو اندازہ نہیں تھا میں رستہ تھا مگر سیدھا نہیں تھا مجھے سورج پہ یہ بھی برتری تھی میں روشن تھا مگر جلتا نہیں تھا سفر کی آرزو کچھ دیدنی تھی میں قطرہ تھا مگر رکتا نہیں تھا جڑیں تھیں سایہ تھا پھل پھول بھی تھے میں جتنا تھا فقط اتنا نہیں تھا وہ لگتا تھا مگر ایسا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    آتا چلا گیا ہے وہ خوش فکر دھیان میں

    آتا چلا گیا ہے وہ خوش فکر دھیان میں بڑھتی چلی گئی ہے نفاست بیان میں یوں کھو گیا ہوں مثنوی سحر البیان میں شامل ہوں جیسے میں بھی اسی داستان میں اک پیر چھو گیا ہے کسی مہ جمال کا اب جشن کا سماں سا ہے کپڑے کے تھان میں تجھ تک تو میں پہنچ ہی گیا ہوں مگر یہ کیا دل صرف ہو چکا ہے کہیں ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ دل کے لئے جال کے مساوی ہے

    نگاہ دل کے لئے جال کے مساوی ہے یہ آئینہ تری تمثال کے مساوی ہے گئے دنوں میں جسے بدترین کہتے تھے اب اچھا حال بھی اس حال کے مساوی ہے نظر جھکائے پڑا ہوں میں اپنے پاؤں میں یہ جا مرے لیے پاتال کے مساوی ہے قسم خدا کی کسی اور پر اگر گزرے یہ کیفیت کسی بھونچال کے مساوی ہے سمجھ سکیں تو یہ ...

    مزید پڑھیے

    اگر آدمی وقت کا راز پا لے

    اگر آدمی وقت کا راز پا لے تو ممکن ہے لمحہ بھی صدیوں کو جا لے میں الفاظ کی کنجیاں ڈھالتا ہوں کھلیں گے کسی روز ابجد کے تالے گزرتا ہوا وقت رک سا گیا ہے پرندے ہیں دو چونچ میں چونچ ڈالے زمیں کی کمر تو ہے پہلے سے کوزہ وہی بوجھ رکھیو جسے یہ اٹھا لے یہ ہجرت بھی جیسے عبث کی گئی ہو یہاں ...

    مزید پڑھیے

    چراغ آنکھ کی سب بولیاں سمجھتے ہیں

    چراغ آنکھ کی سب بولیاں سمجھتے ہیں یہ ہم سے پوچھ جو ایسی زباں سمجھتے ہیں بہا کے لے گیا سب خد و خال عہد شباب ہم آئینے کو بھی آب رواں سمجھتے ہیں ہمیں ازل سے محبت سکھائی جاتی ہے ہم اہل حرف یہی اک زباں سمجھتے ہیں جہاں یقیں کے تجسس کی آنکھ بند نہ ہو اسے علاقۂ وہم و گماں سمجھتے ...

    مزید پڑھیے

    پھر جو کٹتی نہیں اس رات سے خوف آتا ہے

    پھر جو کٹتی نہیں اس رات سے خوف آتا ہے سو ہمیں شام ملاقات سے خوف آتا ہے مجھ کو ہی پھونک نہ ڈالیں کہیں یہ لفظ مرے اب تو اپنے ہی کمالات سے خوف آتا ہے کٹ ہی جاتا ہے سفر سہل ہو یا مشکل ہو پھر بھی ہر بار شروعات سے خوف آتا ہے وہم کی گرد میں لپٹے ہیں سوال اور ہمیں کبھی نفی کبھی اثبات سے ...

    مزید پڑھیے

    چلا رہی ہیں جس پہ زبانیں لہو لگی

    چلا رہی ہیں جس پہ زبانیں لہو لگی یہ وہ صدا تھی جو مجھے بار گلو لگی کیا کیا نہ مس کیا تجھے میں نے فراق میں لیکن تری کمی جو ترے روبرو لگی میں تب قرار دوں گا تجھے اپنا ہم سخن جب میری خامشی بھی تجھے گفتگو لگی اب گھر کے رہ گیا ہوں عجب ازدحام میں ہر آرزو کی پشت سے ہے آرزو لگی اے حسرت ...

    مزید پڑھیے

    سائے کے حق میں کچھ نہیں میرے بیان میں

    سائے کے حق میں کچھ نہیں میرے بیان میں جو آپ چھپتا پھرتا ہے ہر سائبان میں یہ چھوٹے چھوٹے شوق بھی اس کو روا نہیں جس کو بڑا بنایا گیا خاندان میں مجھ کو ہے آدمی سے توقع خلوص کی سونا تلاش کرتا ہوں مٹی کی کان میں قد سے نہیں بنائی ہے پہچان جست سے یہ فرق ہے ہماری تمہاری اٹھان میں مٹی ...

    مزید پڑھیے

    یہ عمل موجۂ انفاس کا دھوکا ہی نہ ہو

    یہ عمل موجۂ انفاس کا دھوکا ہی نہ ہو زندگی عشرت احساس کا دھوکا ہی نہ ہو جیسے اک خواب ہوا عہد گزشتہ کا ثبات دم آئندہ مری آس کا دھوکا ہی نہ ہو یہ نگیں بھی نہ ہو بس معجزۂ تار نظر یہ ہنر شیشہ و الماس کا دھوکا ہی نہ ہو مرے تخئیل کے ہی عکس نہ ہوں سبزہ و گل دہر اوہام کا وسواس کا دھوکا ...

    مزید پڑھیے

    اڑاتے آئے ہیں آپ اپنے خواب زار کی خاک

    اڑاتے آئے ہیں آپ اپنے خواب زار کی خاک یہ اور خاک ہے اک دشت بے کنار کی خاک یہ میں نہیں ہوں تو پھر کس کی آمد آمد ہے خوشی سے ناچتی پھرتی ہے ریگزار کی خاک ہمیں بھی ایک ہی صحرا دیا گیا تھا مگر اڑا کے آئے ہیں وحشت میں بے شمار کی خاک ہمیں مقیم ہوئے مدتیں ہوئیں لیکن سروں سے اب بھی نکلتی ...

    مزید پڑھیے