در و دیوار پر سایہ پڑا ہے
در و دیوار پر سایہ پڑا ہے ہواؤں میں نمی کا ذائقہ ہے کوئی طوفان ہے کچا گھڑا ہے نگاہ شوق منزل آشنا ہے وہی کنج قفس ہے اور ہم ہیں وہی امید کا جلتا دیا ہے میں آئینے میں خود کو کھوجتا ہوں یہ گاؤں کب کا خالی ہو چکا ہے دسمبر کی کہانی اور کچھ تھی مرے دل کا اجڑنا حادثہ ہے غم عقبیٰ غم ...