موج ہوا کی زنجیریں پہنیں گے دھوم مچائیں گے
موج ہوا کی زنجیریں پہنیں گے دھوم مچائیں گے تنہائی کو گیت میں ڈھالیں گے گیتوں کو گائیں گے کندھے ٹوٹ رہے ہیں صحرا کی یہ وسعت بھاری ہے گھر جائیں تو اپنی نظر میں اور سبک ہو جائیں گے پرچھائیں کے اس جنگل میں کیا کوئی موجود نہیں اس دشت تنہائی سے کب لوگ رہائی پائیں گے زمزم اور گنگا جل ...