ہم زباں ہو گئے ہم لوگ شناسائی ہوئی
ہم زباں ہو گئے ہم لوگ شناسائی ہوئی شب کے سناٹوں میں جب روبرو تنہائی ہوئی آپ کا بزم سے اٹھ جانا مرے حق میں رہا آپ کے بعد مری خوب پذیرائی ہوئی پیاس زخمی رہی زندان کے دروازوں تک بہتے دریاؤ کہاں تم سے مسیحائی ہوئی پہلے کچھ ابر کے ٹکڑوں سا تھا لرزاں اس پر بعد میں کیا ہوا کیوں شکل ...