ہم زباں ہو گئے ہم لوگ شناسائی ہوئی
ہم زباں ہو گئے ہم لوگ شناسائی ہوئی
شب کے سناٹوں میں جب روبرو تنہائی ہوئی
آپ کا بزم سے اٹھ جانا مرے حق میں رہا
آپ کے بعد مری خوب پذیرائی ہوئی
پیاس زخمی رہی زندان کے دروازوں تک
بہتے دریاؤ کہاں تم سے مسیحائی ہوئی
پہلے کچھ ابر کے ٹکڑوں سا تھا لرزاں اس پر
بعد میں کیا ہوا کیوں شکل تھی گہنائی ہوئی
میری بستی تو دل آزار پسند بستی ہے
کیوں ترے شہر میں مہمان کی رسوائی ہوئی
ایک مدت ہوئی جس لاش کو دفنائے ہوئے
آج وہ لاش ملی نہر میں اترائی ہوئی
صرف میراث شہادت ہی نہیں حصے میں
دولت گریۂ مظلوم بھی آبائی ہوئی