Rahat Sarhadi

راحت سرحدی

راحت سرحدی کی غزل

    وہ طمطراق سکندر نہ قصر شاہ میں ہے

    وہ طمطراق سکندر نہ قصر شاہ میں ہے جو بات راحتؔ خستہ کی خانقاہ میں ہے اسے ہٹانا پڑے گا جنوں کی ٹھوکر سے یہ کائنات رکاوٹ مری نگاہ میں ہے میں اس سماج کو تسلیم ہی نہیں کرتا کہ عشق جیسی عبادت جہاں گناہ میں ہے خیال رکتے نہیں آہنی فصیلوں سے کہ آہ خلق کہاں قدرت سپاہ میں ہے کہ یہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    ترا غم اشک بن کر آ گیا ہے

    ترا غم اشک بن کر آ گیا ہے کہ پھر آگے سمندر آ گیا ہے بظاہر خشک سالی ہے گھروں پر مگر سیلاب اندر آ گیا ہے نیا پیغام شیشے پر لکھوں گا کہ میرے ہاتھ پتھر آ گیا ہے سہارا کیا دیا گرتے مکاں کو کہ ملبہ میرے اوپر آ گیا ہے یہاں پر بھی وہی صحرا ہے راحتؔ میں سمجھا تھا مرا گھر آ گیا ہے

    مزید پڑھیے

    جہاں کہیں بھی ترے نام کی دہائی دی

    جہاں کہیں بھی ترے نام کی دہائی دی مجھے پلٹ کے خود اپنی صدا سنائی دی نگل رہی تھی مرے آئنوں کی تاریکی کہ پھر کہیں سے اچانک کرن دکھائی دی ترے جمال نے بخشی نگاہ مٹی کو ترے خیال نے توفیق لب کشائی دی عطا ہے اس کی دیا دل مجھے سمندر کا بنا کے چاند تجھے جس نے دل ربائی دی سنا ہے پھر کہیں ...

    مزید پڑھیے

    بتان خشت و سنگ سے کلام کر کے آ گیا

    بتان خشت و سنگ سے کلام کر کے آ گیا کہ میں تمہارے شہر میں بھی شام کر کے آ گیا وہاں کسی کو یاد بھی نہیں تھا میرا نام تک جہاں میں اپنی زندگی تمام کر کے آ گیا گلی میں کھیلتا ہوا ملا تھا اپنا بچپنا جسے میں حسرتوں بھرا سلام کر کے آ گیا تمہارا نام پھر کرید کر اداس پیڑ پر خزاں میں فصل گل ...

    مزید پڑھیے

    مقید ذات کے اندر نہیں میں

    مقید ذات کے اندر نہیں میں چراغ گنبد بے در نہیں میں مجھے بھی راستہ دے بحر خلقت کسی فرعون کا لشکر نہیں میں تو سستانے کو ٹھہرا ہے یقیناً تری پرواز کا محور نہیں میں رہے کیسے مسلسل ایک موسم کسی تصویر کا منظر نہیں میں تو جب چاہے مجھے تسخیر کر لے ترے امکان سے باہر نہیں میں وہ پھر ...

    مزید پڑھیے

    بنا کے تلخ حقائق سے پر نکلتی ہے

    بنا کے تلخ حقائق سے پر نکلتی ہے چٹان میں بھی اگر ہو خبر نکلتی ہے مری طرف سے اجازت ہے دیکھ لو خود ہی کہیں جدائی کی صورت اگر نکلتی ہے وہ تیرگی ہے کہ خود راہ ڈھونڈنے کے لیے چراغ ہاتھ میں لے کر سحر نکلتی ہے غرور اتنا بھی کیا اپنی شان شوکت پر یہ خوش گمانی تو کٹوا کے سر نکلتی ہے مرے ...

    مزید پڑھیے

    ذکر شبیر سے نکل آیا

    ذکر شبیر سے نکل آیا خون تحریر سے نکل آیا ہے غریبی کی فصل گل کہ ثمر چھت کے شہتیر سے نکل آیا رقص میں یوں لگے مجھے جیسے جسم زنجیر سے نکل آیا میری قسمت تو دیکھیے صاحب خواب تعبیر سے نکل آیا لے کے اپنی کمان و تیغ و سپر سایۂ پیر سے نکل آیا عذر تخریب گر پس پردہ شوق تعمیر سے نکل ...

    مزید پڑھیے

    جا بیٹھے ندی کنارے رات اور میں

    جا بیٹھے ندی کنارے رات اور میں دونوں اک دوجے کے سہارے رات اور میں اک جیسے حالات کے مارے ہیں سارے رستے پتے چاند ستارے رات اور میں جاگ کئی دن بعد تجھے ملنے آئے آج پرانے دوست تمہارے رات اور میں کچھ گھر دیر سے آنے والوں کے سائے اور کئی بے در بے چارے رات اور میں چپ کی تاریکی کے سینے ...

    مزید پڑھیے