خواہشوں کو سر پہ لادے یوں سفر کرنے لگے
خواہشوں کو سر پہ لادے یوں سفر کرنے لگے لوگ اپنی ذات کو زیر و زبر کرنے لگے اس جنوں کا اس سے بہتر اور کیا ہوگا صلہ ہم خود اپنے خون سے دامن کو تر کرنے لگے دھوپ میں جلتے رہے ہیں سرو کی صورت مگر یہ غضب ہے چاند پر پھر بھی نظر کرنے لگے دوستوں نے تحفتاً بخشے جو زخموں کے گلاب ان کی بو ...