Raeesuddin Raees

رئیس الدین رئیس

رئیس الدین رئیس کی غزل

    روز اک خواب مسلسل اور میں

    روز اک خواب مسلسل اور میں رات بھر یادوں کا جنگل اور میں ہاتھ کوئی بھی سہارے کو نہیں پاؤں کے نیچے ہے دلدل اور میں سوچتا ہوں شب گزاروں اب کہاں گھر کا دروازہ مقفل اور میں ہر قدم تاریکیاں ہیں ہم رکاب اب کوئی جگنو نہ مشعل اور میں ہے ہر اک پل خوف رقصاں موت کا چار سو ہے شور مقتل اور ...

    مزید پڑھیے

    کس کو معلوم تھا اک روز کہ یوں ہونا تھا

    کس کو معلوم تھا اک روز کہ یوں ہونا تھا مستقل ضبط کا انجام جنوں ہونا تھا عمر بھر زیست کے کاغذ پہ مشقت لکھنا یعنی اک شخص کا اس طرح بھی خوں ہونا تھا بے حسی ملتی مجھے شہر میں جینے کے لیے یا مرا دست ہنر دست فسوں ہونا تھا فاصلہ قرب کی ساعت میں سمٹ سکتا تھا سر جھکا تھا تو ترا دل بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہوا نمناک ہوتی جا رہی ہے

    ہوا نمناک ہوتی جا رہی ہے حویلی خاک ہوتی جا رہی ہے دریچہ کھولتے ہی تھم گئی ہے ہوا چالاک ہوتی جا رہی ہے ہمارے حوصلوں کے آگے مشکل خس و خاشاک ہوتی جا رہی ہے لہو کے ہاتھ دھوئے جا رہے ہیں ندی ناپاک ہوتی جا رہی ہے نئی تہذیب سے یہ نسل نو اب بہت بیباک ہوتی جا رہی ہے سمندر تھام لے موجوں ...

    مزید پڑھیے

    ورق ورق تجھے تحریر کرتا رہتا ہوں

    ورق ورق تجھے تحریر کرتا رہتا ہوں میں زندگی تری تشہیر کرتا رہتا ہوں بہت عزیز ہے مجھ کو مسافتوں کی تھکن سفر کو پاؤں کی زنجیر کرتا رہتا ہوں مصوروں کو ہے زعم مصوری لیکن میں اپنی زیست کو تصویر کرتا رہتا ہوں میں سونپ دیتا ہوں ہر رات اپنے خوابوں کو ہر ایک صبح کو تعبیر کرتا رہتا ...

    مزید پڑھیے

    تمام شہر میں ہے عام کاروبار ہوس

    تمام شہر میں ہے عام کاروبار ہوس کہ چہرے چہرے پہ چسپاں ہے اشتہار ہوس ابھی رگوں میں ہے تلخیٔ اعتبار ہوس بدن میں ٹوٹ رہا ہے ابھی خمار ہوس جو چل پڑے ہو تو انجام گمرہی سے ڈرو سپرد خاک نہ کر دے یہ رہ گزار ہوس ہوا ہے گرم نہ کمرے کی کھڑکیاں کھولو نہ جانے شہر میں ٹھہرے کہاں غبار ...

    مزید پڑھیے

    بند ہے آج بھی ترسیل پہ راہ الفاظ

    بند ہے آج بھی ترسیل پہ راہ الفاظ میں کہ مضمون ہوں پھر بھی ہوں تباہ الفاظ آج اوراق نوردی ہے مقدر لیکن کل مورخ مجھے ٹھہرائے گا شاہ الفاظ کاش مفہوم گزیدہ کوئی پتھر ہی ملے سنگ زاروں میں بھٹکتی ہے نگاہ الفاظ لوگ سمجھیں گے نہ جانیں گے مری بات مگر میرے سر آئے گا پھر بھی یہ گناہ ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ثبوت نہ ہوگا تمہارے ہونے کا

    کوئی ثبوت نہ ہوگا تمہارے ہونے کا نہ آیا فن جو قلم خون میں ڈبونے کا ہر ایک بات پہ بس قہقہے برستے ہیں یہ طرز کتنا نرالا ہے دل کے رونے کا شروع تم نے کیا تھا تمہیں بھگتنا ہے جو سلسلہ تھا غلط فہمیوں کو بونے کا شناخت ہو تو گئی اپنے اور پرائے کی نہیں ہے غم مجھے عمر عزیز کھونے کا رئیسؔ ...

    مزید پڑھیے

    سفر یہ میرا عجب امتحان چاہتا ہے

    سفر یہ میرا عجب امتحان چاہتا ہے بلا کے حبس میں بھی بادبان چاہتا ہے وہ میرا دل نہیں میری زبان چاہتا ہے مرا عدو ہے مجھی سے امان چاہتا ہے ہزار اس کو وہی راستے بلاتے ہیں قدم قدم وہ نیا آسمان چاہتا ہے عجیب بات ہے مجھ سے مرا ہی آئینہ مری شناخت کا کوئی نشان چاہتا ہے میں خوش ہوں آج کہ ...

    مزید پڑھیے

    بجز متاع دل لخت لخت کچھ بھی نہیں

    بجز متاع دل لخت لخت کچھ بھی نہیں مری نگاہ میں تدبیر و بخت کچھ بھی نہیں گزرتے وقت کی صورت حریف بھی نہ رہے بری نگاہ نہ لہجے کرخت کچھ بھی نہیں مسافتوں کی گھنی دھوپ میں ہیں تنہا ہم ہماری راہ میں سائے درخت کچھ بھی نہیں میں نقش و رنگ کی دنیا لٹا کے آیا ہوں مری نگاہ میں اب تاج و تخت کچھ ...

    مزید پڑھیے