رباب رشیدی کی غزل

    دھوپ رخصت ہوئی شام آئی ستارا چمکا

    دھوپ رخصت ہوئی شام آئی ستارا چمکا گرد جب بیٹھ گئی نام تمہارا چمکا ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا تھا مجھے تم نے جب مجھ کو پکارا تو کنارا چمکا مسکراتی ہوئی آنکھوں سے ملا اذن سفر شہر سے دور نہ جانے کا اشارا چمکا ایک تحریر کہ جو صاف پڑھی بھی نہ گئی مگر اک رنگ مرے رخ پہ دوبارا چمکا آج ...

    مزید پڑھیے

    جب کبھی قافلۂ ابر رواں ہوتا ہے

    جب کبھی قافلۂ ابر رواں ہوتا ہے شاخ در شاخ اک احساس جواں ہوتا ہے بوئے گل موج صبا سے یہ کہے ہے دیکھو کون اب ہم سفر عمر رواں ہوتا ہے یہ تصور جو سہارا ہے مرے جینے کا یہ تصور بھی کسی وقت گراں ہوتا ہے دن رہے چاہے پگھلنے لگے سورج سے بدن رات پر تو کسی قاتل کا گماں ہوتا ہے کتنے لمحے ہیں ...

    مزید پڑھیے