دھوپ رخصت ہوئی شام آئی ستارا چمکا
دھوپ رخصت ہوئی شام آئی ستارا چمکا گرد جب بیٹھ گئی نام تمہارا چمکا ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا تھا مجھے تم نے جب مجھ کو پکارا تو کنارا چمکا مسکراتی ہوئی آنکھوں سے ملا اذن سفر شہر سے دور نہ جانے کا اشارا چمکا ایک تحریر کہ جو صاف پڑھی بھی نہ گئی مگر اک رنگ مرے رخ پہ دوبارا چمکا آج ...