جب کبھی قافلۂ ابر رواں ہوتا ہے

جب کبھی قافلۂ ابر رواں ہوتا ہے
شاخ در شاخ اک احساس جواں ہوتا ہے


بوئے گل موج صبا سے یہ کہے ہے دیکھو
کون اب ہم سفر عمر رواں ہوتا ہے


یہ تصور جو سہارا ہے مرے جینے کا
یہ تصور بھی کسی وقت گراں ہوتا ہے


دن رہے چاہے پگھلنے لگے سورج سے بدن
رات پر تو کسی قاتل کا گماں ہوتا ہے


کتنے لمحے ہیں جو بے چہرہ چلے جاتے ہیں
سوچنے والے کو احساس کہاں ہوتا ہے


کوئی آندھی کہ بجھا دے یہ چراغوں کی قطار
ذہن میں جلتے ہیں اور گھر میں دھواں ہوتا ہے


اب نہ لہجے میں وہ گرمی نہ وہ آنکھوں میں چمک
کوئی ایسے میں بھلا دشمن جاں ہوتا ہے