سینہ ہے ایک یاس کا صحرا لیے ہوئے
سینہ ہے ایک یاس کا صحرا لیے ہوئے دل رنگ گلستان تمنا لئے ہوئے ہے آہ درد و سوز کی دنیا لیے ہوئے طوفان اشک خون ہے گریہ لئے ہوئے اک کشتۂ فراق کی تربت پہ نوحہ گر داغ جگر میں شمع تمنا لئے ہوئے میں اک طرف ہوں شکل خزاں پائمال یاس اک سمت وہ بہار کا جلوہ لئے ہوئے جانا سنبھل کے اے دل بیتاب ...