سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا
پھر شام کا اندھیرا چھا گیا۔ کسی دور دراز کی سرزمین سے، نہ جانے کہاں سے میرے کانوں میں ایک دبی ہوئی سی، چھپی ہوئی آواز آہستہ آہستہ گا رہی تھی، چمک تارے سے مانگی، چاند سے داغِ جگر مانگا اڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلفِ برہم سے تڑپ بجلی سے پائی، حورسے پاکیزگی پائی حرارت لی نفس ...