Qayyum Tahir

قیوم طاہر

قیوم طاہر کی غزل

    ہر ایک رنگ ہر اک خواب کے حصار میں تو

    ہر ایک رنگ ہر اک خواب کے حصار میں تو کہ آنسوؤں کی طرح چشم انتظار میں تو اداس راکھ سے منظر کے ایک شہر میں میں نئے جہان کی اک صبح زر نگار میں تو میں اتنے دور افق سے پرے بھی دیکھ آیا ملا تو جسم پر بکھرے ہوئے غبار میں تو میں زخم زخم خزاؤں کے بیچ زندہ ہوں نمو پزیر بہاروں کے رنگ زار میں ...

    مزید پڑھیے

    ہوا میں نوحے گھلے درد مشعلوں میں رہا

    ہوا میں نوحے گھلے درد مشعلوں میں رہا بہت عجیب سا دکھ تھا کہ بستیوں میں رہا تمام پیڑ تھے ساحل پہ آگ کی زد میں مرے قبیلے کا ہر فرد پانیوں میں رہا بہت دلاسے دئے ہم نے شب گزیدہ کو مگر وہ شخص کہ دن میں بھی وسوسوں میں رہا وہی تھا آخری نقطہ مری لکیروں کا ہر ایک قوس میں وہ سارے زاویوں ...

    مزید پڑھیے

    دکھائے گرد کے خیمے پہ گھر نہیں لکھا

    دکھائے گرد کے خیمے پہ گھر نہیں لکھا سفر تو سونپ گیا وہ شجر نہیں لکھا وہ آشنا مجھے پانی سے کر کے لوٹ گیا کسی بھی لہر میں جس نے گہر نہیں لکھا بشارتیں تھیں کہ پوروں کی سمت آتی تھیں مگر یہ ہاتھ کہ جن میں ہنر نہیں لکھا عجب گمان تھے قوس نگاہ میں اس کی کھنڈر سے شہر کو اس نے کھنڈر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    آوازوں کی دھند سے ڈرتا رہتا ہوں

    آوازوں کی دھند سے ڈرتا رہتا ہوں تنہائی میں چپ کو اوڑھ کے بیٹھا ہوں اپنی خواہش اپنی سوچ کے بیج لیے اک ان دیکھی خواب زمیں کو ڈھونڈھتا ہوں سامنے رکھ کر گئے دنوں کا آئینہ اپنے دھندلے مستقبل کو دیکھتا ہوں ساحل ساحل بھیگی ریت پہ چلتا تھا صحراؤں میں ٹانگیں توڑ کے بیٹھا ہوں میری ...

    مزید پڑھیے

    خواب ایسے کہ گئی رات ڈرانے لگ جائیں

    خواب ایسے کہ گئی رات ڈرانے لگ جائیں درد جاگے تو سلانے میں زمانے لگ جائیں ہم وہ نادان ہواؤں سے وفا کی خاطر اپنے آنگن کے چراغوں کو بجھانے لگ جائیں تھوڑے گیہوں ابھی مٹی پہ رکھے رہنے دو وہ پرندے کہ کبھی لوٹ کے آنے لگ جائیں آس مہکے جو کسی کھوئے جزیرے کی کبھی تیری بانہیں مجھے ساحل ...

    مزید پڑھیے

    اک ہرا جزیرہ بھی پانیوں سے آگے ہے

    اک ہرا جزیرہ بھی پانیوں سے آگے ہے اس کی دید کی ساعت رت جگوں سے آگے ہے کون سے مناظر میں اس کو ڈھونڈنے نکلیں وہ گمان سے ہٹ کر حیرتوں سے آگے ہے بادبان کی آنکھیں خواب کون سا دیکھیں کون اک کنارا سا ساحلوں سے آگے ہے عکس جھلملاتے ہیں ایک سبز قریے کے جو جلے درختوں کے جنگلوں سے آگے ...

    مزید پڑھیے

    بس ایک ہجر کے موسم کا رنگ گہرا تھا

    بس ایک ہجر کے موسم کا رنگ گہرا تھا ہر ایک رت کو چکھا تھا برت کے دیکھا تھا اس ایک لمحے میں کتنی قیامتیں ٹوٹیں بس ایک لمحے کو تیرے اثر سے نکلا تھا کوئی چراغ بھی رخت سفر میں رکھ لیتے سفر میں رات بھی آئے گی یہ نہ سوچا تھا خود اپنے آپ کو چھونے کا حوصلہ نہ رہا کہ میرے جسم پہ میرا ہی خون ...

    مزید پڑھیے

    ایک نشتر سا رگ جاں میں اترنے دینا

    ایک نشتر سا رگ جاں میں اترنے دینا زندہ رہنا ہے تو زخموں کو نہ بھرنے دینا اور کچھ دیر نہ اے تیز ہواؤ تھمنا جتنے بوسیدہ ہیں صفحات بکھرنے دینا تیری پہچان کی اک قوس الگ بن جائے اپنے لہجے کو ذرا اور سنورنے دینا چھو کے دیکھیں گے تو پھر ان سے بھی نفرت ہوگی آسمانوں کو زمیں پر نہ اترنے ...

    مزید پڑھیے

    غم قرطاس پہ اپنے کرب کی باتیں لکھتے رہنا

    غم قرطاس پہ اپنے کرب کی باتیں لکھتے رہنا ہجر کتاب کو پڑھتے رہنا شرحیں لکھتے رہنا پھر یوں ہوگا اک گم گشتہ چہرا سامنے ہوگا خوابوں کی دیوار بنانا آنکھیں لکھتے رہنا اتنا کرنا اپنی سوچ کی آن نہ بکنے دیتا دن کی دن ہی اور راتوں کو راتیں لکھتے رہنا ایسا وقت نہ آنے دینا سوکھیں سوچ ...

    مزید پڑھیے

    وہاں ساحلوں پہ بشارتوں کا چراغ بھی ہے جلا ہوا

    وہاں ساحلوں پہ بشارتوں کا چراغ بھی ہے جلا ہوا یہاں ہاتھ میرے بندھے ہوئے مرا بادبان چھدا ہوا گئی ساعتوں کی تلاش میں مرا حرف حرف بکھر گیا کہیں تیرے نام کا شعر بھی تھا بیاض جاں پہ لکھا ہوا مری پور پور پہ تتلیاں کئی رنگ چھوڑ کے جا چکیں ترے ذکر کا کوئی پھول تھا مرے رت جگوں میں کھلا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2