پیا کرتے ہیں چھپ کر شیخ جی روزانہ روزانہ
پیا کرتے ہیں چھپ کر شیخ جی روزانہ روزانہ
چلے آتے ہیں آدھی رات کو مے خانہ روزانہ
محبت جان بھی دیتی ہے ترساتی بھی ہے یارو
کبھی پیمانہ برسوں میں کبھی پیمانہ روزانہ
پریشاں ہوں کنول جیسی یہ آنکھیں چوم لینے دو
کہ ان پھولوں پہ منڈلائے گا یہ بھونرا نہ روزانہ
شرابوں کو نہ جانے لوگ کیوں بدنام کرتے ہیں
کہ میں تو مر گیا ہوتا اگر پیتا نہ روزانہ
کبھی چلمن اٹھا کر دیکھ تو لو بات مت کرنا
کہ دل تھامے ہوئے آتا ہے اک دیوانہ روزانہ
کسی دن بزم ساقی سے نکالے جاؤ گے قیصرؔ
نبھاؤ گے کہاں تک ٹھاٹھ یہ شاہانہ روزانہ