قیصر شمیم کی غزل

    ہونے لگے ہیں رستے رستے، آپس کے ٹکراؤ بہت

    ہونے لگے ہیں رستے رستے، آپس کے ٹکراؤ بہت ایک ساتھ کے چلنے والوں میں بھی ہے الگاؤ بہت بہکے بہکے سے بادل ہیں کیا جانے یہ جائیں کدھر بدلی ہوئی ہواؤں کا ہے ان پر آج دباؤ بہت سوچ کا ہے یہ پھیر کہ یارو پیچ و خم کی دنیا میں ڈھونڈ رہے ہو ایسا رستہ جس میں نہیں گھماؤ بہت اپنے آپ میں الجھی ...

    مزید پڑھیے

    ابلتے پانیوں میں ہوں کہاں ابال کی طرح

    ابلتے پانیوں میں ہوں کہاں ابال کی طرح میں آج بھی ہوں تہہ نشیں گزشتہ سال کی طرح دلوں میں سب کے چبھ رہی ہے اک سوال کی طرح تری نگاہ یاس بھی ہے میرے حال کی طرح کروں گا تجھ سے گفتگو ذرا ٹھہر نمٹ تو لوں کھڑا ہے کوئی بیچ میں ابھی سوال کی طرح نہ پوچھ مجھ سے حال دل کہ ان دنوں ہے زندگی کسی ...

    مزید پڑھیے

    سلگ رہی ہے زمیں یا سپہر آنکھوں میں

    سلگ رہی ہے زمیں یا سپہر آنکھوں میں دھواں دھواں سا ہے کیوں تیرا شہر آنکھوں میں کھلے دریچے کے باہر ہے کون سا موسم کہ آگ بھرنے لگی سرد لہر آنکھوں میں کہاں ہے نیند کہ ہم خواب دیکھیں امرت کا جو شام گزری ہے اس کا ہے زہر آنکھوں میں خفا ہوئے بھی کسی سے تو کیا کیا ہم نے بہت ہوا تو رہا دل ...

    مزید پڑھیے

    شکستہ خواب کے ملبے میں ڈھونڈھتا کیا ہے

    شکستہ خواب کے ملبے میں ڈھونڈھتا کیا ہے کھنڈر کھنڈر ہے یہاں دھول کے سوا کیا ہے نظر کی دھند میں ہیں بھولی بسری تصویریں پلٹ کے دیکھنے والے یہ دیکھنا کیا ہے ابھی تو کاٹ رہی ہے ہر ایک سانس کی دھار ازل جب آئے تو دیکھوں کہ انتہا کیا ہے رہے گی دھوپ مرے سر پہ آخری دن تک جواں ہے پیڑ مگر ...

    مزید پڑھیے

    موسم تو بدلتے ہیں لیکن کیا گرم ہوا کیا سرد ہوا

    موسم تو بدلتے ہیں لیکن کیا گرم ہوا کیا سرد ہوا اے دوست ہمارے آنگن میں رہتی ہے ہمیشہ زرد ہوا سب اپنے شناسا چھوڑ گئے رستے میں ہمیں غیروں کی طرح چہرے پہ ہمارے ڈال گئی لا کر یہ کہاں کی گرد ہوا چھوٹے نہ کبھی پھولوں کا نگر کوشش تو یہی ہے اپنی مگر اک روز اڑا لے جائے گی پتوں کی طرح بے درد ...

    مزید پڑھیے

    کہاں ہے کوئی خدا کا خدا کے بندوں میں

    کہاں ہے کوئی خدا کا خدا کے بندوں میں گھرا ہوا ہوں ابھی تک انا کے بندوں میں نہ کوئی سمت مقرر نہ کوئی جائے قرار ہے انتشار کا عالم ہوا کے بندوں میں وہ کون ہے جو نہیں اپنی مصلحت کا غلام کہاں ہے بوئے وفا اب وفا کے بندوں میں خدا کرے کہ سماعت سے میں رہوں محروم کبھی جو ذکر ہو میرا ریا کے ...

    مزید پڑھیے

    ایک پودا جو اگا ہے اسے پانی دینا

    ایک پودا جو اگا ہے اسے پانی دینا اپنے آنگن کو نئی رت کی کہانی دینا تری آواز سے جب ٹوٹے مرے گھر کا سکوت در و دیوار کو بھی سحر بیانی دینا پونچھ لینا مری پلکوں سے لہو کی بوندیں مری آنکھوں کو اگر منظر ثانی دینا کشتیاں دینا مگر اذن سفر سے پہلے ٹھہرے پانی کو بھی دریا کی روانی ...

    مزید پڑھیے

    تھوڑی سی شہرت بھی ملی ہے تھوڑی سی بدنامی بھی

    تھوڑی سی شہرت بھی ملی ہے تھوڑی سی بدنامی بھی میری سیرت میں اے قیصرؔ خوبی بھی ہے خامی بھی کتنے عاشق سنبھل گئے ہیں میرا فسانہ سن سن کر میرے حق میں جیسی بھی ہو کام کی ہے ناکامی بھی محفل محفل ذکر ہمارا سوچ سمجھ کے کر واعظ اپنے مخالف بھی ہیں کتنے اور ہیں کتنے حامی بھی ایسا تو ممکن ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو سب کا بہت چہیتا تھا

    وہ جو سب کا بہت چہیتا تھا قبر کی ساعتوں میں تنہا تھا جس نے دنیا کو خوب دیکھا تھا اس کی آنکھوں میں قہقہہ سا تھا رنج کیا خواب کے بکھرنے کا کچھ نہ تھا ریت کا گھروندا تھا اس کے آنگن میں روشنی تھی مگر گھر کے اندر بڑا اندھیرا تھا وہ بھی پتھرا کے رہ گیا آخر اس کی آنکھوں میں جو سویرا ...

    مزید پڑھیے