ہونے لگے ہیں رستے رستے، آپس کے ٹکراؤ بہت
ہونے لگے ہیں رستے رستے، آپس کے ٹکراؤ بہت ایک ساتھ کے چلنے والوں میں بھی ہے الگاؤ بہت بہکے بہکے سے بادل ہیں کیا جانے یہ جائیں کدھر بدلی ہوئی ہواؤں کا ہے ان پر آج دباؤ بہت سوچ کا ہے یہ پھیر کہ یارو پیچ و خم کی دنیا میں ڈھونڈ رہے ہو ایسا رستہ جس میں نہیں گھماؤ بہت اپنے آپ میں الجھی ...