Qaisar Qalandar

قیصر قلندر

قیصر قلندر کی غزل

    تجھ سے بچھڑ کے درد ترا ہم سفر رہا

    تجھ سے بچھڑ کے درد ترا ہم سفر رہا میں راہ آرزو میں اکیلا کبھی نہ تھا یہ اور بات رات جواں تھی جواں رہی ساقی اداسیوں کے مجھے جام دے گیا بازار وقت سے کہاں جنس وفا گئی تنہا ہے ماہ مصر کا جلتا ہوا دیا تاریک تھی یہ رات مگر یاد کی کرن آئی تو نور حسن کا دروازہ پھر کھلا حائل ہوئے دلوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    جب درد کی شمعیں جلتی ہیں احساس کے نازک سینے میں

    جب درد کی شمعیں جلتی ہیں احساس کے نازک سینے میں اک حسن سا شامل ہوتا ہے پھر تنہا تنہا جینے میں کچھ لطف کی گرمی کی خاطر کچھ جان وفا کے صدقے میں گیسوئے الم کے سائے میں راحت سی ملی ہے پینے میں آغوش تمنا چھو آئیں جب زلف یار کی خوشبو میں آنکھوں میں ساون لہرایا دیپک سا سلگا سینے ...

    مزید پڑھیے

    یہ درد لا زوال تمہیں کون دے گیا

    یہ درد لا زوال تمہیں کون دے گیا سرمایۂ جمال تمہیں کون دے گیا موسیقیوں کی چاندنی نکھری ہے لفظ لفظ یہ عشرت خیال تمہیں کون دے گیا اس وادیٔ سکون و مسرت کے باوجود یہ رنج یہ ملال تمہیں کون دے گیا کب تک تلاش کیجیئے آسودہ حالیاں افسردہ ماہ و سال تمہیں کون دے گیا دل کے قریب ہجر کی رت ...

    مزید پڑھیے

    اے ہم نفسو درد کی یہ رات کڑی ہے

    اے ہم نفسو درد کی یہ رات کڑی ہے سر تھامے ہوئے دل میں کہیں آس کھڑی ہے ہم رنگ شفق ہے دل معصوم کا عالم وہ دور تمنا کی سحر چپ کے کھڑی ہے اجلی تھی تری یاد کی یہ زرد سی پتی خاکستر ایام میں خاموش پڑی ہے ان آنکھوں میں پھر دیکھا حیا رنگ تبسم رستے میں قضا سے مری پھر آنکھ لڑی ہے پھر دست صبا ...

    مزید پڑھیے

    اندیشوں کے شہر میں رہنا تیری میری عادت ہے

    اندیشوں کے شہر میں رہنا تیری میری عادت ہے محرومی کے صدمے سہنا تیری میری عادت ہے ارمانوں کی نازک مالائیں پہنانا شاموں کو یاد پون کے ساتھ ہی بہنا تیری میری عادت ہے خوب سلگتے جانا برفیلے لمحوں کے سایوں میں دکھ کا ایک بھی لفظ نہ کہنا تیری میری عادت ہے خوابوں سے بہلانا دل کو ہو ...

    مزید پڑھیے