Qaisar Amravatwi

قیصر امراوتوی

قیصر امراوتوی کی نظم

    بجھی ہوئی جوانیاں

    نہ اضطراب غزنوی نہ مشرب ایاز ہے نہ خون میں حرارتیں نہ سوز ہے نہ ساز ہے نہ ذوق جام و مے کدہ نہ بت کدہ کی آرزو نہ طوف کوئے یار کا نہ حسرتیں نہ جستجو نہ ذوق‌ تیغ ناز ہے نہ شوق ناوک نظر نہ نالۂ حزیں رسا نہ آہ سرد میں اثر نہ ہم نشیں نہ ولولہ کہ لو کہیں لگائیں ہم نہ حوصلہ کہ سختیاں فراق کی ...

    مزید پڑھیے

    وطن

    بہت عزیز ہے مجھ کو وطن عزیز وطن وطن کی خاک ہے عنبر مری نگاہوں میں وطن کے قطرے سمندر مری نگاہوں میں وطن کے ذرے ہیں گوہر مری نگاہوں میں وطن کے خار گل تر مری نگاہوں میں بہت عزیز ہے مجھ کو وطن عزیز وطن مری نگاہوں میں وقعت ہے طور سینا کی مری نگاہوں میں عظمت ہے عرش عالی کی مری نگاہوں میں ...

    مزید پڑھیے

    شاعر کی تمنائیں

    امنگیں دل سے اٹھ اٹھ کر تخیل میں سنورتی ہیں مرے ظلمت کدہ میں عرش سے حوریں اترتی ہیں وہ میری حسرتیں وہ آرزوئیں وہ تمنائیں جو بر آئیں تو دنیا کے جہنم سرد ہو جائیں یقیں ہوتا ہے دل کو جادۂ حق سے گزرنا ہے مجھے مستقبل انسانیت تعمیر کرنا ہے اٹھوں اٹھ کر نظام محفل ہستی بدل ڈالوں بڑھوں ...

    مزید پڑھیے

    خدا سے

    تجھ کو بھی کچھ خبر ہے دنیا بنانے والے یہ کارگاہ ہستی بازار اوج و پستی لے دیکھ ہو رہی ہے بے چینیوں کی بستی تجھ کو بھی کچھ خبر ہے دنیا بنانے والے 2 پھولوں کے چاک داماں غنچوں میں سوز پنہاں گلشن بہار میں بھی بے کیف و درد ساماں سوز دروں نہیں ہے جوش جنوں نہیں ہے دل ہی سے عاشقی تھی دل ہی ...

    مزید پڑھیے