شاعر کی تمنائیں

امنگیں دل سے اٹھ اٹھ کر تخیل میں سنورتی ہیں
مرے ظلمت کدہ میں عرش سے حوریں اترتی ہیں
وہ میری حسرتیں وہ آرزوئیں وہ تمنائیں
جو بر آئیں تو دنیا کے جہنم سرد ہو جائیں
یقیں ہوتا ہے دل کو جادۂ حق سے گزرنا ہے
مجھے مستقبل انسانیت تعمیر کرنا ہے
اٹھوں اٹھ کر نظام محفل ہستی بدل ڈالوں
بڑھوں بڑھ کر بدی کی قوتوں کا سر کچل ڈالوں
سراپا سوز ہو کر گرم کر دوں قلب ہستی کو
تپش اندوزیوں کا درس دوں سکان پستی کو
ضمیر و فکر انسانی کی آزادی کا خواہاں ہوں
میں نسل و رنگ و خوں کے امتیازوں سے گریزاں ہوں
یہ بزم رنگ و بو محروم‌ رنگ و بو نہ ہو جائے
مجھے ڈر ہے کہ یہ دنیا مقام ہو نہ ہو جائے
سمیٹوں مرکز انسانیت پر ظلم برہم کو
سکھاؤں احترام زندگی اولاد آدم کو
وقار آدمیت سے خرد کو آشنا کر دوں
گزار عشق سے آئینۂ دل کی جلا کر دوں
حقیقت آشنائے ذوق کر دوں کج نگاہوں کو
جگہ دیں نیکیوں میں یہ مرے رنگیں گناہوں کو
مٹا کر امتیاز نیک و بد سب ایک ہو جائیں
خدا بھی ایک ہے بندے بھی اس کے ایک ہو جائیں
نہ گلچیں ہو نہ صیاد‌ ستم راں کی ستم رانی
نہ گل کی چاک دامانی نہ غنچوں کی پریشانی
نہ طوفاں ہو نہ طوفاں میں غریبوں کا جہاز آئے
خدایا ہم فریب کشتی و ساحل سے باز آئے
یہ میری حسرتیں یہ آرزوئیں یہ تمنائیں
جو بر آئیں تو دنیا کے جہنم سرد ہو جائیں
مری خاموش راتوں میں بھی اک ہلچل سی رہتی ہے
دعا کرتا ہوں میں انسانیت آمین کہتی ہے