خشک ہو جائے نہ جھرنے والا
خشک ہو جائے نہ جھرنے والا اب کے تالاب ہے بھرنے والا جسم پر نام نہ لکھنا اپنا یہ ہے مٹی میں اترنے والا مار کر دیکھ لیا ہے اس کو ہم سے مرتا نہیں مرنے والا اب تو آہٹ بھی نہیں آتی ہے یوں گزرتا ہے گزرنے والا اس لیے جھیل میں ہلچل ہے بہت اک جزیرہ ہے ابھرنے والا ہو رہا ہے پس دیوار بھی ...