Prem Kumar Nazar

پریم کمار نظر

نظر نئی غزل کے اہم شاعر

Prominent poet of New Ghazal. 'The Silken Knot' is the english version of his selected ghazals

پریم کمار نظر کے تمام مواد

24 غزل (Ghazal)

    خشک ہو جائے نہ جھرنے والا

    خشک ہو جائے نہ جھرنے والا اب کے تالاب ہے بھرنے والا جسم پر نام نہ لکھنا اپنا یہ ہے مٹی میں اترنے والا مار کر دیکھ لیا ہے اس کو ہم سے مرتا نہیں مرنے والا اب تو آہٹ بھی نہیں آتی ہے یوں گزرتا ہے گزرنے والا اس لیے جھیل میں ہلچل ہے بہت اک جزیرہ ہے ابھرنے والا ہو رہا ہے پس دیوار بھی ...

    مزید پڑھیے

    وقت قریب ہے پھر منظر کے بدلنے کا

    وقت قریب ہے پھر منظر کے بدلنے کا سورج کی ضد دیکھو یہ نہیں ڈھلنے کا میں بھی تلاش آب ہوس میں نکلا ہوں شور سنا تھا اک چشمے کے ابلنے کا اہل جنوں کیوں دشت میں آنا چھوڑ دیا بھول گئے فن نوک خار پہ چلنے کا صبح تلک اس شہر میں جانے کیا ہو جائے رشتہ ڈھونڈھو راتوں رات نکلنے کا یاد یار کا آ ...

    مزید پڑھیے

    عمر بھر شوق کا دفتر لکھا

    عمر بھر شوق کا دفتر لکھا لفظ اک بھی نہ مؤثر لکھا ہم نے اشرف کو بھی احقر لکھا آدمی تھا جسے بندر لکھا عمر ویسے تو سفر میں گزری لکھنے بیٹھے تو اسے گھر لکھا موسم گل کی بشارت معلوم پڑھ لیا ماتھے پہ پتھر لکھا خاک سے خاک ہوئی ہے پیدا لاکھ صحرا کو سمندر لکھا ہم وہ بیمار ہیں اچھے نہ ...

    مزید پڑھیے

    ہے اختیار میں تیرے نہ میرے بس میں ہے

    ہے اختیار میں تیرے نہ میرے بس میں ہے وہ ایک لمحہ جو اوروں کی دسترس میں ہے وہ منہ سے کچھ نہیں کہتا کہ پیش و پس میں ہے بدن کا کرب تو ظاہر نفس نفس میں ہے اگرچہ شور بہت کوچۂ ہوس میں ہے وہ کیا کرے کہ جو چالیسویں برس میں ہے کرے گا کون اسے سازش بدن میں شریک جو شخص قید ابھی روح کے قفس میں ...

    مزید پڑھیے

    ہر چند کہ تھا ہجر میں اندیشۂ جاں بھی

    ہر چند کہ تھا ہجر میں اندیشۂ جاں بھی آخر کو تو ہم سے ہی اٹھا بار گراں بھی اک گوشۂ در رکھا ہے محفوظ ہمارا اس وسعت کونین میں ہم جائیں جہاں بھی معدوم بھی ہوں اہل تماشا کی نظر میں بکھرا ہے ہر اک سمت مگر میرا نشاں بھی کچھ کم نہ ہوا رزق خدا تیرے گدا پر ہر چند کہ گلیوں میں اٹھا شور سگاں ...

    مزید پڑھیے

تمام

3 نظم (Nazm)

    صبح دم

    صبح دم اس کی آنکھوں میں ڈھلتی ہوئی رات کا نشۂ وصل ہے جسم جیسے کہ اک لہلہاتی ہوئی فصل ہے

    مزید پڑھیے

    نظم

    وہ جوانی کے نشے میں لڑکھڑاتی ڈولتی جاتی حسینہ میں ہوں اک پژمردہ و پامال سا درماندگی کے قہر کا مارا ہوا بے حس مسافر جس کی نظروں میں فقط اس کے تعاقب کی سکت باقی بچی ہے پھر بھی میرے جسم کے اک زندہ اور جاوید حصے میں یہ دھڑکنے کی صدا ان کی شاکی ہے جو کہتے ہیں کہ میرا جسم خاکی ہے

    مزید پڑھیے

    میرا پسندیدہ منظر

    مجھے ان وادیوں میں سیر کی خواہش نہیں باقی مجھے ان بادلوں سے راز کی باتیں نہیں کرنی مجھے ان دھند کی چادر میں اب لپٹے نہیں رہنا مجھے اس عالم یخ بستگی سے کچھ نہیں کہنا مجھے موہوم لفظوں کا شناسائی نہیں بننا مجھے اس کار پر اسرار کا داعی نہیں بننا میں خوابوں کے دریچوں میں کھڑا رہنے سے ...

    مزید پڑھیے