کیا ہے عشق نے آزاد دو جہاں سے ہمیں
کیا ہے عشق نے آزاد دو جہاں سے ہمیں نہ کچھ یہاں سے غرض ہے نہ کچھ وہاں سے ہمیں خودی کو بھول کے مست الست ہو جانا ملا ہے فیض یہ خم خانۂ مغاں سے ہمیں اذاں حرم میں ہے ناقوس ہے کنشت میں تو صدائیں آتی ہیں تیری کہاں کہاں سے ہمیں پھر آج اٹھا ہے وہ پردۂ حجاب کہیں شعاعیں سی نظر آتی ہیں کچھ ...