Payam Fatehpuri

پیام فتحپوری

پیام فتحپوری کی غزل

    جو تبسموں سے ہو گلفشاں وہی لب ہنسی کو ترس گئے

    جو تبسموں سے ہو گلفشاں وہی لب ہنسی کو ترس گئے ہمیں شہریار حیات تھے ہمیں زندگی کو ترس گئے یہ عجیب صبح بہار ہے کوئی زندگی کی کرن نہیں ہمیں خالق مہ و مہر ہیں ہمیں روشنی کو ترس گئے یہ چمن ہے کیسا چمن جہاں تہی دامنی ہی نصیب ہے یہ بہار کیسی بہار ہے کہ کلی کلی کو ترس گئے نہ کرم نہ کوئی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی نغمۂ غم آرزو کبھی زندگی کی پکار ہم

    کبھی نغمۂ غم آرزو کبھی زندگی کی پکار ہم کبھی خاک کوچۂ یار ہم کبھی شہریار بہار ہم کبھی چل پڑے تری راہ میں تو حد جنوں سے گزر گئے ترے انتظار میں ہو گئے کبھی نقش راہگزار ہم ہمیں کشتگان حیات سے ہیں جنون عشق کی عظمتیں کبھی ہنس پڑے تہ تیغ ہم کبھی جھوم اٹھے سر دار ہم رہے مضطرب کبھی ...

    مزید پڑھیے

    کہاں سے آ گیا کہاں یہ شام بھی کہاں ہوئی

    کہاں سے آ گیا کہاں یہ شام بھی کہاں ہوئی نہ ہم نفس نہ ہم زباں یہ شام بھی کہاں ہوئی بجھی نظر بجھے قدم نہ راہبر نہ ہم سفر نہ رہ گزر نہ کارواں یہ شام بھی کہاں ہوئی نہ شمع دل نہ شمع رخ نجوم شب نہ ماہ شب نگاہ و دل دھواں دھواں یہ شام بھی کہاں ہوئی نہ گیسوؤں کی چھاؤں ہے نہ عارضوں کی ...

    مزید پڑھیے