Parvin Sheer

پروین شیر

پروین شیر کے تمام مواد

5 غزل (Ghazal)

    تری تلاش میں جو خود کو بھول آئے تھے

    تری تلاش میں جو خود کو بھول آئے تھے پتا وہ اپنا کبھی ڈھونڈنے نہ پائے تھے کسے خبر تھی کہ پھولوں میں بھی ہنر ہے وہی کس احتیاط سے کانٹوں سے بچ کے آئے تھے وہ بے حسی کا تھا عالم ذرا خبر نہ ہوئی کہ روشنی تھی سر رہ گزر کہ سائے تھے کنارے دور بہت دور تھے تو مجبوراً سمندروں میں ہی لوگوں نے ...

    مزید پڑھیے

    ہے آسیبوں کا سایا میں جہاں ہوں

    ہے آسیبوں کا سایا میں جہاں ہوں شب دشت بلا میں بے اماں ہوں ہوا کی زد پہ جیسے شمع کی لو میں اپنے حوصلوں کا امتحاں ہوں چراغاں سا ہے دروازے پہ لیکن میں اندر سے کوئی تیرہ مکاں ہوں وہ بادل تھا ہوا کا ہم سفر تھا میں تشنہ کام فصل رائگاں ہوں ستوں کچے تھے بارش سہہ نہ پائے سلگتی دھوپ میں ...

    مزید پڑھیے

    مقتل سے جب گزر کے حریفانہ آئیے

    مقتل سے جب گزر کے حریفانہ آئیے اک دشت بے کنار میں پھر گھر بنائیے تاریک ہو نہ پائے کبھی دامن‌ فلک پلکوں سے تا بہ صبح ستارے جلائیے ہونے نہ پائے پھولوں کا محتاج گلستاں دل کے ہزار زخم ہمیشہ کھلائیے چہروں کو قید سے ہوئے آزاد گر کبھی بکھرے ہوئے وجود کو کیسے بچایئے ساحل نہ دے سکا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ ساتھ دیا میرا دوا نے نہ دعا نے

    کچھ ساتھ دیا میرا دوا نے نہ دعا نے اب جائیں کہاں ڈھونڈنے جینے کے بہانے فرہاد بھی واقف نہیں اب کوہ کنی سے بے کار ہیں فرسودہ محبت کے فسانے اس دیدۂ پر نم میں ہے رقصاں ترا پرتو مہتاب لٹاتا ہے سمندر پہ خزانے

    مزید پڑھیے

    تہ گرداب تو بچنا مرا دشوار ہے پھر بھی

    تہ گرداب تو بچنا مرا دشوار ہے پھر بھی کنارے دور ہیں ٹوٹی ہوئی پتوار ہے پھر بھی تھکن سے چور ہوں، سر رکھ دیا ہے اس کے سینے پر مجھے معلوم ہے یہ ریت کی دیوار ہے پھر بھی متاع رشتۂ جاں کاروبار منفعت کب تھی خریداروں کے حلقے میں سر بازار ہے پھر بھی مری مٹھی میں نازک پنکھڑی محفوظ رہتی ...

    مزید پڑھیے

6 نظم (Nazm)

    شکستہ سپر

    مہرباں نازک رداؤں کی تہوں میں نرم باہوں کی پناہوں میں ہے رقصاں یہ زمیں وہ اک سپر بن کر جھلسنے سے بچا لیتی ہیں اس کو نغمہ گر صیقل فضائیں سبز ریشم کی قبا پہنے زمیں ہاتھوں میں تھامے نسترن نرگس سمن نازک تہوں میں زندگی ہے کس قدر محفوظ لیکن....... لحظہ لحظہ ہر پرت معدوم ہوتی جا رہی ...

    مزید پڑھیے

    وہ کہاں؟

    جب بھی دل بھر آیا آنکھیں چھلکیں تنہائی کے اک گوشے میں اس کے کاندھے پہ سر رکھ کر اس سے دل کی باتیں کہہ کر جی کچھ تو ہلکا ہوتا تھا اس کی دل جوئی کی انگلی میری پلکوں سے رخشاں گوہر چن چن کر اپنی پلکوں کے دھاگے میں پرو کے رکھ لیتی تھی اک دن شام کے گہرے سائے شجر کے زردی مائل آنسو قطرہ قطرہ ...

    مزید پڑھیے

    سیڑھیاں

    دوریوں کی دھند میں گم ہو چکا ہے کارواں اب اٹھ رہا ہے دور تک کالا دھواں جو مڑ کے اس کو تک رہا ہے گھپ اندھیرے غار کی تہ میں اکیلی ناتواں اک زندگی پنجوں کے بل پتھر کی اونچی سیڑھیوں پر ہانپتی کوشش کی بیساکھی کو تھامے رینگتی ہے! پانیوں کی آگ میں جھلسی ہوئی نظریں ٹکی ہیں دور اونچائی پہ ...

    مزید پڑھیے

    ادھورا عنصر

    وہ سالمیت تھی ایک وحدت وہ کاملیت کسی طرح ایک غیر مضبوط ثانیے میں بکھر گئی تو الگ ہوا اس کا ایک حصہ! وہ ایک عنصر کا ایک حصہ جھٹک کے دامن خلا کے گہرے عمیق لا وقت فاصلوں کو عبور کرتا ہزاروں صدیوں کی دوریوں پر چلا گیا ہے....! کوئی نہیں جانتا کے کیسے وہ نامکمل شکستہ عنصر ادھورے پن کی ...

    مزید پڑھیے

    برف کی مورتی

    برف کی آندھیاں چیختی دہاڑتی ایک ہیجان میں شہر جاں کی فصیلوں پہ یوں حملہ آور ہوئیں اک دھماکہ ہوا سب شجر گر گئے ہر مکاں ڈھے گیا در دریچوں کے ٹکڑے ہوئے جا بجا آب جو منجمد ہو گئی ہر گلی یخ سفیدی میں یوں چھپ گئی برف کی ریت کا ڈھیر سارا نگر ہو گیا اور اس سے تراشی گئی اک چمکتی ہوئی برف کی ...

    مزید پڑھیے

تمام