Pakiza Beg

پاکیزہ بیگ

پاکیزہ بیگ کی غزل

    ہم لوگ نہ نکلے تو سفر کون کرے گا

    ہم لوگ نہ نکلے تو سفر کون کرے گا دنیا کو حقیقت کی خبر کون کرے گا پھر کوہ کنی کا ہے تقاضا کوئی آئے اک کام ہے کرنے کا مگر کون کرے گا ہم نے تو چراغوں کی طرح فرض نبھایا اب رات کی کالک کو سحر کون کرے گا الفاظ کی بوچھاڑ ہے اور گوش سماعت کیا جانیے پتھر پہ اثر کون کرے گا بے رحمیٔ حالات ...

    مزید پڑھیے