ہم لوگ نہ نکلے تو سفر کون کرے گا

ہم لوگ نہ نکلے تو سفر کون کرے گا
دنیا کو حقیقت کی خبر کون کرے گا


پھر کوہ کنی کا ہے تقاضا کوئی آئے
اک کام ہے کرنے کا مگر کون کرے گا


ہم نے تو چراغوں کی طرح فرض نبھایا
اب رات کی کالک کو سحر کون کرے گا


الفاظ کی بوچھاڑ ہے اور گوش سماعت
کیا جانیے پتھر پہ اثر کون کرے گا


بے رحمیٔ حالات ہے ہتھیار سنبھالو
بھاگو گے تو سینوں کو سپر کون کرے گا


پھر کون لٹا دے گا دل و جان سر بزم
پھر زلف گرہ گیر کو سر کون کرے گا