Ozair Rahman

عزیر رحمان

عزیر رحمان کی نظم

    آزادی کا حق

    یہ سچ ہے اب آزاد ہیں ہم مٹی سے سگندھ یہ آتی ہے اے جان سے پیارے ہم وطنو ابھی کام بہت کچھ باقی ہے آزادی پہلی منزل تھی تھا حوصلہ سب نے ساتھ دیا کانٹوں سے بھرے ان رستوں کو زخمی پیروں سے پار کیا آگے دیکھا محبوب نظر بیٹھا وو ہمارا ساقی ہے اے جان سے پیارے ہم وطنو ابھی کام بہت کچھ باقی ...

    مزید پڑھیے

    حق اور گھر

    کبھی ان چڑیوں سے بھی پوچھنا ہے تمہارا گھر کہاں ہے یہ گھر ہے کیا یہ گھر ہے کب ہوا کرتا ہے کس کا یے رٹائر ہو چکا ہوں میں جو کہتے ہیں وو کالج تھا غلط ہیں وو ہے کب پہچان رشتوں کی ہے کب پہچان جگہوں کی وو میرا گھر تھا میری جان وہی ہر روز کا جانا قطاریں کمروں کی ہوتیں بڑے کچھ اور کچھ ...

    مزید پڑھیے

    ایک گزارش

    شکستہ ہوں مگر دولت بھی ہے حاصل ہوئی ہم کو گزارے ساتھ جو پل قدر اس کی ہو نہیں کس کو بنے سرمایہ ہیں وہ زندگی کا پیار سے رکھنا خودارا یادیں مت لینا یہی یادیں ہیں لے جائیں گی ہم کو آخری دم تک نہ کوئی ہم سفر ہوگا نہ جائے گا کوئی گھر تک یہ گھر احساس کا ہوگا میرا احساس مت لینا خودارا ...

    مزید پڑھیے

    میٹرو شہر کی ایک عام لڑکی

    کان پک جاتے ہیں دنیا کی شکایت سن کر کس نے جانا ہے تمہیں کس کا یقیں کر لوں میں وو جو کہتے ہیں کے تم عام سی لڑکی ہو جسے فکر اپنی ہے کسی اور سے مطلب ہی نہیں اپنی روزانہ کی روٹین میں میں جکڑی جکڑی وہ ہی میٹرو کی سواری وہ ہی آپا دھاپی تل نہ دھرنے کی جگہ پھر بھی پہنچنا ہے جسے اپنی ہر چیز ...

    مزید پڑھیے

    درد کی آواز

    اڑتی دیش میں گرد نہیں ہے تمہیں ذرا بھی درد نہیں ہے دیش ہے اپنا مانتے ہو نا دکھ جتنے ہیں جانتے ہو نا پیڑ ہے ایک پر ڈالیں بہت ہیں ڈالوں پر ٹہنیاں بہت ہیں پتے ہیں روزانہ اگتے پیلے لیکن گرتے رہتے تم ہو مالی نظر کہاں ہے چمن کی سوچو دھیان کہاں ہے کیا تم سے ہر فرد نہیں ہے تمہیں ذرا بھی ...

    مزید پڑھیے