Nusrat Gwaliari

نصرت گوالیاری

نصرت گوالیاری کی غزل

    جھیل کے پار دھنک رنگ سماں ہے کیسا

    جھیل کے پار دھنک رنگ سماں ہے کیسا جھلملاتا ہوا وہ عکس وہاں ہے کیسا جلتے بجھتے ہوئے فانوس ہیں منظر منظر نقش در نقش وہ مٹ کر بھی عیاں ہے کیسا کتنے الفاظ و معانی کے ورق کھلتے ہیں میرے اندر یہ کتابوں کا جہاں ہے کیسا مجھ میں اب میری جگہ اور کوئی ہے شاید کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ گماں ...

    مزید پڑھیے

    کیوں فلک آشنا کیا تھا مجھے

    کیوں فلک آشنا کیا تھا مجھے جب زمیں پر ہی پھینکنا تھا مجھے بن گیا میں کتاب قصوں کی اس نے اک لفظ میں کہا تھا مجھے اب نگینہ ہے کل یہی پتھر راستے میں پڑا ملا تھا مجھے اس کا آسیب مجھ پہ برسے گا حادثہ یہ بھی جھیلنا تھا مجھے میں نقیب صبا تھا پھولوں نے پتھروں کی طرح سنا تھا مجھے میں ...

    مزید پڑھیے

    لہو اچھالتے لمحوں کا سلسلہ نکلا

    لہو اچھالتے لمحوں کا سلسلہ نکلا مجھے پہنچنا کہاں تھا کہاں میں آ نکلا جہاں سفید گلابوں کا خواب تھا روشن وہاں سیاہ پہاڑوں کا سلسلہ نکلا بہاؤ تیز تھا دریا کا چند لمحوں میں مری نگاہ کی حد سے وہ دور جا نکلا طلسم ٹوٹا جب اس کے حسین لہجے کا مری امید کے برعکس فیصلہ نکلا نہ جانے کب سے ...

    مزید پڑھیے

    نقش پا اس کے راستہ اس کا

    نقش پا اس کے راستہ اس کا مڑ کے دیکھا تو کچھ نہ تھا اس کا مبتلا کر گیا عذابوں میں ایک کمزور فیصلہ اس کا اختیارات کم نہ تھے میرے میں نے چاہا نہیں برا اس کا کام تو اور ہی کسی کا تھا نام بد نام ہو گیا اس کا لوگ جس زہر سے ہلاک ہوئے کتنا میٹھا تھا ذائقہ اس کا جو مری ہار پر بہت خوش ...

    مزید پڑھیے

    مرے غبار سفر کا مآل روشن ہے

    مرے غبار سفر کا مآل روشن ہے شفق شفق ابھی نقش زوال روشن ہے صدائے گنبد تعبیر سن رہا ہوں میں فضائے خواب میں کرنوں کا جال روشن ہے وہ ایک فکریہ لمحہ اسی طرح ہے ابھی ترے جواب سے میرا سوال روشن ہے پرند کیوں نہ اڑائیں ہنسی اندھیروں کی مرے شجر کی ابھی ڈال ڈال روشن ہے سرور تیری رفاقت کا ...

    مزید پڑھیے

    چاند کی کشتی سجی ہے اور میں

    چاند کی کشتی سجی ہے اور میں جھیل ہے اک جل پری ہے اور میں لو دیے کی سسکیاں لیتی ہوئی ٹمٹماتی روشنی ہے اور میں دھوپ قرنوں کی مسافت سے نڈھال تیز لمحوں کی ندی ہے اور میں گوش بر آواز ہیں دیوار و در بے وضاحت نغمگی ہے اور میں پھر اسی آواز کا موہوم عکس پھر وہی حرف خفی ہے اور میں علم کا ...

    مزید پڑھیے

    شفق کا رنگ کا خوشبو کا خواب تھا میں بھی

    شفق کا رنگ کا خوشبو کا خواب تھا میں بھی پرائے ہاتھ میں کوئی گلاب تھا میں بھی نہ جانے کتنے زمانے مرے وجود میں تھے خود اپنی ذات میں اک انقلاب تھا میں بھی کہانیاں تو بہت تھیں مگر لکھی نہ گئیں کسی کے ہاتھ میں سادہ کتاب تھا میں بھی نہ جانے کیوں نظر انداز کر دیا مجھ کو جہاں پہ تم تھے ...

    مزید پڑھیے

    پلک پلک سیل غم عیاں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل

    پلک پلک سیل غم عیاں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل کسک یہ کیسی درون جاں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل ہماری بستی میں ہر طرف انقلاب نو کا عمل تھا جاری نہ جانے یہ کون سا جہاں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل لہو اچھلنے کا شور جیسے فضا میں گونجا کبھی نہیں تھا یہ حکم شہر ستمگراں ہے نہ کوئی آہٹ ...

    مزید پڑھیے