Noor Mohammad Noor

نور محمد نور

  • 1930

نور محمد نور کی غزل

    ہمارا اشک نہیں ہے یہ قدر گوہر ہے

    ہمارا اشک نہیں ہے یہ قدر گوہر ہے شکست ضبط نہ کہئے اسے یہ جوہر ہے اسی نے دھوئے ہیں دامن کے داغ اے ہمدم اسی کا آج بھی پتھر کے دل میں کچھ ڈر ہے حدیث رنج و الم سے ڈرا نہ اے ناصح حدیث رنج و الم ہی تو آج گھر گھر ہے خدایا اس سے زیادہ ہوا تو کیا ہوگا نظام زیست بہت آج کل مکدر ہے سر نیاز کی ...

    مزید پڑھیے

    پائیں جو روشنی تری جلوہ‌ گری سے ہم

    پائیں جو روشنی تری جلوہ‌ گری سے ہم ہو لیں قریب اور بھی کچھ بے خودی سے ہم کر لے قبول حسن کے صدقہ میں جان و دل فریاد کر رہے ہیں تری دلبری سے ہم ایسا نصیب میرا کہاں میرے ہم زباں کچھ دیر بات کرتے جو ہنس کر کسی سے ہم اے حسن مجھ کو حسن کے صدقہ کی بھیک دے پھیلائے ہاتھ بیٹھے ہیں کس عاجزی ...

    مزید پڑھیے

    کاکل کی طرح بخت بھی بل کھائے ہوئے ہے

    کاکل کی طرح بخت بھی بل کھائے ہوئے ہے کیوں آج مقدر مجھے الجھائے ہوئے ہے زنجیر محن پاؤں میں پہنائے ہوئے ہے یا جلوۂ جاناں مجھے بہلائے ہوئے ہے لے جائے مجھے سوئے چمن اب نہ بہاراں دل قسمت زنداں کی قسم کھائے ہوئے ہے میں بند قفس میں ہوں مگر فکر نشیمن سینے میں جگر درد سے برمائے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں ہیں جنہیں عشق ہے بانکپن سے

    ہمیں ہیں جنہیں عشق ہے بانکپن سے ہمیں ہیں جو الجھیں ہیں دار و رسن سے کسی جسم کا حسن ہے پیرہن سے کہیں پیرہن خود سجا ہے بدن سے یہ مانا ہے جنت بہت خوب صورت مگر خوب صورت نہ ہوگی وطن سے گلوں نے چرایا ترا حسن رنگیں معطر فضا ہے ترے پیرہن سے نہ تیشہ نہ سر کام آیا وفا میں صدا آ رہی ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    کیا خبر ہجر کی شب کی بھی سحر ہوتی ہے

    کیا خبر ہجر کی شب کی بھی سحر ہوتی ہے کس طرح دیکھیے یہ رات بسر ہوتی ہے تیرے دیوانوں کی محفل میں ہے پہچان یہی ریگ صحرا سے سوا خاک بسر ہوتی ہے کام بگڑے ہوئے بن جاتے ہیں اکثر میرے جب کبھی تیری عنایت کی نظر ہوتی ہے کاٹتا ہوں شب فرقت اسی ارمان کے ساتھ ڈوب جاتے ہیں ستارے تو سحر ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    غیروں کو عطا اور جفا میرے لئے ہے

    غیروں کو عطا اور جفا میرے لئے ہے خوش ہوں کہ محبت کی سزا میرے لئے ہے خوش ہو کے ابھی تیشۂ فرہاد اٹھا لے اے عشق یہ قدرت کی عطا میرے لئے ہے تم جو بھی کرو مالک و مختار ہو صاحب پابندی پیمان وفا میرے لئے ہے کھل پائے گا کب عقدۂ راز دل بلبل رہنے دو اسے کام مرا میرے لئے ہے جائیں گے کہاں ...

    مزید پڑھیے

    عشق سے عشق کے انجام کی باتیں ہوں گی

    عشق سے عشق کے انجام کی باتیں ہوں گی صبح تک آپ کی پھر شام سے باتیں ہوں گی دور منزل ہے ہوائیں بھی مخالف سی ہیں دو گھڑی بیٹھو تو آرام سے باتیں ہوں گی جس طرح ہوتی ہے رندوں کی خرابات سے بات اس طرح گردش ایام سے باتیں ہوں گی ساقیا اب تو عنایت کی نظر ہو جائے کب تلک مجھ سے تہی جام کی باتیں ...

    مزید پڑھیے

    مقتل میں اپنی موت کا ارماں لئے ہوئے

    مقتل میں اپنی موت کا ارماں لئے ہوئے ہم جا رہے ہیں زیست کا ساماں لئے ہوئے آتا ہے کوئی درد کا درماں لئے ہوئے اے بخت جاگ گردش دوراں لئے ہوئے اے وقت آج پھر سے انہیں تار تار کر بیٹھے ہیں ہم بھی جیب و گریباں لئے ہوئے نکلے ہیں اشک ضبط کے دامن کو چیر کر پہلو میں اپنے شورش طوفاں لئے ...

    مزید پڑھیے