لہو کی بے بسی کو یوں نہ رسوا چھوڑ دینا تھا
لہو کی بے بسی کو یوں نہ رسوا چھوڑ دینا تھا کچھ اس میں غیرت جاں کا حوالہ چھوڑ دینا تھا میں آئینوں میں خود کو ڈھونڈھتا ہوں خود نہیں ملتا مرے چہروں میں کوئی میرا چہرہ چھوڑ دینا تھا عجب گھر ہیں کہ جن میں کوئی کھڑکی ہے نہ دروازہ ہوا کے آنے جانے کا تو رستہ چھوڑ دینا تھا عبث ساحل پہ تم ...