نیاز حیدر کی نظم

    سیلف پورٹریٹ

    دیکھا ہے کسی نے اسے کہیں آدھے سر میں الجھے الجھے اجلے بال سانولے رنگ کے چہرے پر بھی اجلے بالوں کا بھونچال اس کی صورت کبھی کبھی ملگجی شام سی کبھی سحر نورانی ہے اندھیارے اجیالے کی یہ صورت فن لا فانی ہے پیشانی کے آئینے پر مر مٹتے لاکھوں آکاش دیوانی دیوانی آنکھیں اور بہت بے صبر ...

    مزید پڑھیے

    میری تلاش مت کرو

    مری تلاش مت کرو نہ مجھ کو پا سکو گے تم جہاں پہنچ گیا ہوں میں وہاں نہ آ سکو گے تم تمہارے جسم و جاں دل و نظر میں ہوں تمہارے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر سفر میں ہوں تم اپنے آپ سے ابھی نہیں ہو روشناس تاکہ دیکھتے مجھے خود اپنے آپ میں کبھی مگر تم اپنے آپ کو نہ دیکھ پاؤ گے ابھی ابھی نہ اپنے آپ سے ...

    مزید پڑھیے

    آج انسان کہاں ہے

    میں ہوں جس کا شاعر وہ انسان کہاں ہے ساری دنیا جسے مانتی رہی ہے وہ بھگوان کہاں ہے حسین چہرے پھول اور کلیاں جھومتی شاخیں درخت آشیاں ہریالی نہریں دریا ساگر اونچے اونچے کہساروں کی بلندیاں ناچنے والے ہزار ہا رنگین پرندے شام و سحر کو پھولنے والی شفق برکھا رت کی ست رنگی دھنک سورج چاند ...

    مزید پڑھیے

    میرا نام

    وہ جو اپنے کو میرا حریف اور مقابل سمجھتے ہیں ان سے کہو دوستی زندگی کا اٹل فیصلہ آخری حکم ہے اور اس فرض کو ٹالنا یا ہوس کے لیے بیچ دینا مرے دوستو دشمنو جرم ہے اک مضرت رساں جرم ہے مجھ کو مرغوب ہے زندگی مجھ کو محبوب ہے موت کے راز کو فاش کرتی ہوئی چاندنی اور مرے ساتھ ہے مہ وشوں ماہ ...

    مزید پڑھیے

    تشنگی

    یہ چھلکتا ہوا جام میں اسے پی نہ سکوں گا ساقی آزمائی ہوئی شے ذائقہ تلخ اثر پھیکا ہے چند لمحوں کا سرور جیسے اک ماہ جبیں دوشیزہ مسکراتی ہوئی تیزی سے گزر جاتی ہے چند لمحوں کا سرور تشنگی ساغر مے سے بھی کہیں جاتی ہے توڑ دے جام و سبو تشنگی نام ہے جینے کا مجھے جینے دے تشنگی روز ازل سے ہے ...

    مزید پڑھیے

    ایک سوال

    ایک لمحہ بھی اک زمانہ ہے یاد رکھنا کہ بھول جانا ہے لب و رخسار و گیسوئے خم دار وہ لچکتی ہوئی باہیں وہ ہم آغوش بدن وہ چھلکتے ہوئے پیمانوں کی محفل وہ ارم نغمہ و رقص فسوں کارئ فن شہر آرائش جنت ہے زمیں پر کہ نہیں یہ نمائش گہ تعمیر و ترقی یہ زمیں زندگی محنت و قدرت کے عجائب یہ مشینیں خود ...

    مزید پڑھیے

    صبح کا تأثر

    سویرے سیر کو جاتے ہوئے میرے تعاقب میں پرندوں کی چہک باد سحرگاہی کے ہلکورے خمار و خواب کی ساری تھکن میں بھول جاتا ہوں خرام کیف آور تال خوش رفتار قدموں کی رواں رکھتی ہے اک انجان منزل کی طرف مجھ کو سہانے وقت کی وہ سرمئی دھندلی فضا جس میں گھنے اشجار شاخ و برگ رقص آغاز کرتے ہیں درختوں ...

    مزید پڑھیے