Nisar Kubra Azimabadi

نثار کبریٰ عظیم آبادی

نثار کبریٰ عظیم آبادی کی غزل

    نہ باز آئے تم اپنی ہاں کہتے کہتے

    نہ باز آئے تم اپنی ہاں کہتے کہتے مگر تھک گئی یہ زباں کہتے کہتے زبردستی ضد نے کیا دل کو زخمی جگر شق ہوا ہاں میں ہاں کہتے کہتے بچے خوب باطل کی آرائیوں سے ہر اک بات پر الاماں کہتے کہتے کسی کی نہ دیکھی کبھی مہربانی زباں تھک گئی مہرباں کہتے کہتے ابھرتی گئیں طعن و تشنہ سے قومیں نشاں ...

    مزید پڑھیے

    نہ باز آئے تم اپنی ہاں کہتے کہتے

    نہ باز آئے تم اپنی ہاں کہتے کہتے مگر تھک گئی یہ زباں کہتے کہتے زبردست ضد نے کیا دل کو زخمی جگر شق ہوا ہاں میں ہاں کہتے کہتے بچے خوب باطل کی آرائیوں سے ہر اک بات پر الاماں کہتے کہتے کسی کی نہ دیکھی کبھی مہربانی زباں تھک گئی مہرباں کہتے کہتے ابھرتی گئیں طعن و تشنہ سے قومیں نشاں ...

    مزید پڑھیے

    اسی کی نور افشانی زمیں سے آسماں تک ہے

    اسی کی نور افشانی زمیں سے آسماں تک ہے نگہبانی جہاں کی اس حقیقی پاسباں تک ہے ترستی ہیں نگاہیں سبز گنبد کے نظارے کو رسائی بد نصیبوں کی کہاں اس آستاں تک ہے قلم کی تیز رفتاری زباں کی گرم گفتاری نصیحت میں اثر ہونا کلام خوش بیاں تک ہے چمن میں جب خزاں آئی نہ گل ہے اور نہ بلبل ہے نوائے ...

    مزید پڑھیے