اسی کی نور افشانی زمیں سے آسماں تک ہے
اسی کی نور افشانی زمیں سے آسماں تک ہے
نگہبانی جہاں کی اس حقیقی پاسباں تک ہے
ترستی ہیں نگاہیں سبز گنبد کے نظارے کو
رسائی بد نصیبوں کی کہاں اس آستاں تک ہے
قلم کی تیز رفتاری زباں کی گرم گفتاری
نصیحت میں اثر ہونا کلام خوش بیاں تک ہے
چمن میں جب خزاں آئی نہ گل ہے اور نہ بلبل ہے
نوائے بلبل شیدا بہار بوستاں تک ہے
اگر وہ دوست صادق ہے تو شکوہ سن نہیں سکتا
حمایت شکوہ بے جا کی کسی نا مہرباں تک ہے
مزہ کیا ایسے جینے میں نہ جب تاب و تواں باقی
درازی عمر کی گویا فضول داستاں تک ہے
مصیبت اور راحت ہیں رفیق زندگی کبریٰؔ
رہائی ان رفیقوں سے نہیں عمر رواں تک ہے