ناظر صدیقی کے تمام مواد

9 غزل (Ghazal)

    فصیل جاں پہ رکھی تھی نہ بام و در پہ رکھی تھی

    فصیل جاں پہ رکھی تھی نہ بام و در پہ رکھی تھی زمانے بھر کی بے خوابی مرے بستر پہ رکھی تھی ابھر آئی تھی پیشانی پہ نقش معتبر بن کر پرانی فکر کی خوشبو نئے منظر پہ رکھی تھی نظر اٹھی تو بس حیرت سے ہم دیکھا کئے اس کو ہماری گمشدہ دستار اس کے سر پہ رکھی تھی اسی کو زخم دینے پر تلا تھا ...

    مزید پڑھیے

    گھر سے اب باہر نکلنے میں بھی گھبراتے ہیں ہم

    گھر سے اب باہر نکلنے میں بھی گھبراتے ہیں ہم سنگ باری ہو کہیں بھی زد میں آ جاتے ہیں ہم آ گلے لگ جا ہمارے تیرگیٔ شام غم روشنی کے نام پر دھوکے بہت کھاتے ہیں ہم ان کا کہنا ہے کہ بس ترک تعلق ہو چکا ہم یہ کہتے ہیں کہ اب تنہا رہے جاتے ہیں ہم یوں تو دنیا نے بھی رکھا ہے نشانے پر ہمیں وحشت ...

    مزید پڑھیے

    مقتل سے میرا کاسۂ سر کون لے گیا

    مقتل سے میرا کاسۂ سر کون لے گیا اس تک یہ دل خراش خبر کون لے گیا چہرے پہ گرد راہ بھی باقی نہیں رہی مجھ سے مرا ثبوت سفر کون لے گیا راس آ چلی تھی دل کی فضائے جنون شوق بہکا کے مجھ کو دشت سے گھر کون لے گیا بے لوث دوستی کے زمانے کہاں گئے سرمایۂ خلوص بشر کون لے گیا یہ دیکھنے کی کوئی ...

    مزید پڑھیے

    تلاطم خیز منظر ہو گئی ہیں

    تلاطم خیز منظر ہو گئی ہیں مری آنکھیں سمندر ہو گئی ہیں اڑانا چاہتی ہیں خاک میری ہوائیں بھی ستم گر ہو گئی ہیں تری مہکی ہوئی زلفوں کو چھو کر گھٹائیں روح پرور ہو گئی ہیں ہوائے گرم تیری شعلگی سے زمینیں جل کے پتھر ہو گئی ہیں اجالے بڑھ رہے ہیں میری جانب دعائیں بار آور ہو گئی ...

    مزید پڑھیے

    منزل کے دور دور تک آثار تک بھی نہیں

    منزل کے دور دور تک آثار تک بھی نہیں میں راہ میں ٹھہرنے کو تیار بھی نہیں حالات کہہ رہے ہیں کہ اس دور نو کے لوگ سوئے ہوئے نہیں ہیں تو بے دار بھی نہیں مجھ کو اگر پڑھا تو بھلا پائے گا نہ وہ میں ہر نظر میں صبح کا اخبار بھی نہیں جو دوسروں کے گھر میں اجالا نہ کر سکے میں ایسی روشنی کا طلب ...

    مزید پڑھیے

تمام